کتاب: ختم نبوت - صفحہ 170
یہاں شبہ اٹھایاجاتا ہے کہ اس روایت نے حدیث : لَا نَبِيَّ بَعْدِي کا مطلب واضح کر دیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کی نفی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ نبی نہیں بن سکتے، یہ مراد نہیں کہ کوئی اور بھی نہیں بن سکتا۔ یہ استدلال و شبہ منطقی ،عقلی اور اصولی دلائل کے اعتبار سے بالکل بے جان ہے، اس سے کسی بھی طور ثابت نہیں ہوتا کہ یہ روایت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص ہے، بلکہ یہ عمومی قاعدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نبی نے نہیں آنا اور اس عموم میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں ، اس میں ان کی کوئی خصوصیت نہیں ، مثلا : میں کسی سے کہتا ہوں کہ آپ اللہ کے شریک نہیں ہیں ، تو اس کامطلب یہ نہیں ہوگا کہ دوسرے لوگ اللہ کے شریک ہیں ، بلکہ عمومی قاعدہ ہے کہ اللہ کا کوئی شریک نہیں ، اب جس سے بھی کہا جائے گا کہ آپ اللہ کے شریک نہیں ہیں ، تو عموم کا فرد ہونے کے ناطے کہا جائے گا، اس حدیث سے بھی یہی مرادہے، دوسرے یہ کہ یہ روایت ضعیف ہے، کیوں کہ میمون ابو عبد اللہ کندی ’’ضعیف‘‘ ہے۔ (تقریب التّہذیب لابن حجر : 7051) آخر الانبیا : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : إِنِّي آخِرُ الْـأَنْبِیَائِ، وَإِنَّ مَسْجِدِي آخِرُ الْمَسَاجِدِ ۔ ’’میں آخری نبی ہوں اورمیری مسجد (نبوی) آخری مسجد ہے۔‘‘ (صحیح مسلم : 1394/507) اس حدیث میں بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد آخری مسجد ہے، اعتراض