کتاب: ختم نبوت - صفحہ 17
وبدل سے محفوظ ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین بنا کر بھیجا گیا ہے، جس کے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا، اس آیت کریمہ میں اللہ نے اپنی صفت علم کا ذکر کیا ہے، اس میں ایک لطیف نکتہ ہے، اللہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ قیامت تک کے لے وحی کی جتنی ضرورت تھی، وہ ہمارے علم میں ہے اور اس کا بیان ہم نے تنصیصا و تعلیلامحمدر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کردیا ہے۔
’’خاتم‘‘ کا لفظ دو طرح پڑھا جاتا ہے:
1. تاء کے کسرہ کے ساتھ، اس میں دو معانی کا احتمال ہے:
۱۔ اسم فاعل ہو، تو ’’خاتم‘‘ کا معنی ہو گا : ’’ختم کرنے والا‘‘
۲۔ اسم آلہ خلاف قیاس ہو، جس کا معنی ہو گا : ’’ختم کا آلہ‘‘ یعنی آپ کے ساتھ نبیوں کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے۔
امام ابن جریر رحمہ اللہ (310ھ) لکھتے ہیں :
بِکَسْرِ التَّائِ خَاتِمُ النَّبِیِّینَ، بِمَعْنٰی أَنَّہٗ خَتَمَ النَّبِیِّینَ ۔
’’تاء کے کسرہ سے خاتم النبین کا معنی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبیوں کا سلسلہ ختم کر دیا ہے۔‘‘ (تفسیر الطّبري : 22/12، 13)
2. لفظ خاتم اگر تاء کے فتحہ سے پڑھیں ، تواسم آلہ کے معنی میں ہو گا، تب اس کے دو معانی ہوں گے :
۱۔ آخر، یعنی آخری نبی، سب سے پیچھے آنے والے۔
۲۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بمنزلہ مہر ہیں ۔ اب نبوت پر مہر لگا دی گئی ہے۔
خاتم کے معنی مہر کے ہوں یا آخر کے یا ختم کرنے والے کے، ہر صورت میں اس کا مفہوم یہی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی۔ اس میں نبوت کی کوئی