کتاب: ختم نبوت - صفحہ 164
عُمَرُ کو معروف کہا ہے۔ (المُغني عن حمل الأسفار : 1054)
علامہ صغانی رحمہ اللہ (650ھ) نے ’’موضوع‘‘ (من گھڑت) کہا ہے۔
(الموضوعات : 77)
علامہ ابن بطال رحمہ اللہ (449ھ)لکھتے ہیں :
إِنَّ الْعَرَبَ تَقُولُ فِي لَوْ : إِنَّہَا تَجِيئُ لِامْتِنَاعِ الشَّيْئِ لِامْتِنَاعِ غَیْرِہٖ، کَقَوْلِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَوْ کَانَ بَعْدِي نَبِيٌّ لَّکَانَ عُمَرُ، وَلَا سَبِیلَ أَنْ یَّکُونَ بَعْدَہٗ نَبِيٌّ کَمَا لَا سَبِیلَ أَنْ یَّکُونَ عُمَرُ نَبِیًّا ۔
’’عرب لفظِ لَوْ کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ دو چیزیں ایک دوسرے کا لازمہ ہیں ، یعنی اگر ایک چیز نہ ہو گی، تو دوسری بھی نہ ہو گی۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’میرے بعد کوئی نبی ہوتا، تو عمر بن خطاب ہوتے۔‘‘ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہی نبی نہیں ، تو کوئی دوسر ابھی نبی نہیں ہو سکتا۔‘‘
(شرح صحیح البخاري : 3/42)
علامہ ابن العربی رحمہ اللہ (543ھ) لکھتے ہیں :
إِنَّ الْعَرَبَ تَقُولُ فِي لَوْ : إِنَّہَا تَجِيئُ لِامْتِنَاعِ الشَّيْئِ بِامْتِنَاعِ غَیْرِہٖ، کَقَوْلِہٖ عَلَیْہِ السَّلَامُ : لَوْ کَانَ بَعْدِي نَبيٌّ لَّکَانَ عُمَرُ، وَلَا سَبِیلَ أَنْ یَّکُونَ بَعْدَہٗ نَبِيٌّ، کَمَا لَا سَبِیلَ أَنْ یَّکُونَ عُمَرُ نَبِیًّا ۔
’’عرب لفظِ لَوْ کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ دو چیزیں ایک دوسرے کا لازمہ ہیں ، یعنی اگر یہ چیز نہ ہو گی، تو دوسری بھی نہ ہو گی۔ جیسا کہ نبی