کتاب: ختم نبوت - صفحہ 125
چیز کے آخر میں آنے کو اس کا افضل ہونا لازم ہے، مفسر رازی کی اگلی عبارت پر غور کیجئے : وَالْإِنْسَانُ لَمَّا کَانَ خَاتَمَ الْمَخْلُوقَاتِ الْجُسْمَانِیَّۃِ کَانَ أَفْضَلَہَا ۔ ’’جب انسان جسمانی مخلوقات میں سب سے آخر میں آیا ہے، تو لازماً وہ ان میں سب سے افضل ہے۔‘‘ اسی طرح جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انبیا علیہم السلام میں سب سے آخر میں آئے ہیں ، تو یقینا سب سے افضل بھی ہیں ، تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ خاتمیت سے افضلیت لازم آتی ہے، اس کا معنی یہ نہیں کہ خاتم کا معنی افضل ہے۔ فافہم وتدبر! خاتم کا معنی آخری ہونا، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے، فرمایا : لَا نَبِيَّ بَعْدِي ۔’’میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔‘‘ اس حدیث کے تحت قاضی عیاض رحمہ اللہ (۵۴۴ھ) فرماتے ہیں : أَيْ بَعْدَ مَبْعَثِہِ انْقَطَعَتِ النُّبُوَّۃُ فَلَا نَبِيَّ حَتّٰی تَقُومَ السَّاعَۃُ ۔ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد نبوت کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے، اب قیامت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ۔‘‘ (إکمال المُعلم : 7/413) اہل لغت کا اجماع ہے کہ خاتم سے مراد آخری ہوتا ہے، اسی طرح امت محمدیہ کا اتفاق ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں ، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کے امتی نبی، ظلی نبی، بروزی نبی اور غیر مستقل نبی ہونے کا عقیدہ رکھے، وہ بالاتفاق کافر ہے۔ علامہ بکیر بن نجم الدین ناصری حنفی رحمہ اللہ (652ھ) لکھتے ہیں :