کتاب: ختم نبوت - صفحہ 118
’’الختام اور خاتم، خوش طبع آدمی کے لئے بولا جاتا ہے۔اس کی تفسیر یہ ہے کہ جب کوئی پانی پئے، تو اپنے آخری گھونٹ میں کستوری کی خوش بو محسوس کرے۔ خِتَامُ الْوَادِي سے مراد وادی کا آخری حصہ ہے۔ خِتَامُ الْقَوْمِ وَخَاتِمُہُمْ وَخَاتَمُہُم سے مراد قوم کا آخری فرد ہے۔ لحیانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں ۔‘‘ (لسان العرب : 12/164)
علامہ طیبی رحمہ اللہ (743ھ) لکھتے ہیں :
اَلْخَاتَمُ مِنْ خَتَمْتُ الشَّيْئَ إِذَا أَتْمَمْتُہٗ وَبَلَغْتُ آخِرَہٗ، وَخَاتِمَۃُ الشَّيْئِ وَخِتَامُہٗ : آخِرُہٗ، وَمِنْہُ خَتْمُ الْقُرْآنِ، سُمِّيَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَاتَِمَ النَّبِیِّینَ، لِأَنَّہٗ آخِرُہُمْ فِي الْبِعْثَۃِ إِلَی الْخَلْقِ، وَإِنْ کَانَ فِي الْفَضْلِ أَوَّلًا ۔
’’لغت عرب میں ایک جملہ بولا جاتا ہے : خَتَمْتُ الشَّيْئَ، جس کا مطلب ہے کہ میں نے فلاں چیز ختم کر دی اور اس کی انتہا کو پہنچ گیا، خاتم بھی اسی خاندان کا لفظ ہے۔ اسی طرح خِاتِمَۃُ الشَّيْئِ وَخِتَامُہٗ کا مطلب ہے : کسی چیز کا آخر، ختم قرآن بھی اسی قبیل سے ہے، یعنی قرآن مکمل ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام خاتم النبیین اسی باعث رکھا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گو کہ فضیلت میں سب سے اول ہیں ، لیکن بعثت میں سب سے آخری ہیں ۔‘‘
(شرح المشکاۃ : 12/3686)