کتاب: کراچی کا عثمانی مذہب اور اس کی حقیقت - صفحہ 97
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کچھ مال تقسیم فرما رہے تھے کہ سیدنا سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ فلاں کوبھی واللہ وہ مجھے مومن نظر آتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یا مسلمان۔ (بخاری ص۹)
اس سے معلوم ہوا کہ ہر کس و ناکس کو نہ تو مومن کہنے کی دلیری کرنی چاہئیے اور نہ مسلمان سمجھنے میں دل چھوٹا کرنا چاہئیے اس کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ لفظ اسلام بولنا بہتر ہے اس لئے کہ وہ ظاہر سے معلوم ہے ایمان اندرونی معاملہ ہے جسے سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا۔
کفر کفر میں فرق ہے:۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ، وَقِتَالُهُ كُفْرٌ (مسلم ج1 ص ۵۸) ـ
’’مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا کفر ہے۔‘‘
نیز فرمایا کہ:
لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ (ايضًا)
’’میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔‘‘
قرآن پاک میں ہے:
’’جو کسی مومن کوجان بوجھ کر قتل کرے اس کی جزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اس پر اللہ کا غضب ہوا اور اس پر اس کی لعنت ہوئی اور اس نے اس کے لئے عذاب عظیم تیار کیا۔ (النساء: ۹۳)۔
ان حوالہ جات کے مطابق کفر اور جہنم کا فتویٰ نہایت نازک صورت اختیار کر جاتا ہے مگر جلدبازی سے پہلے اس آیت کو بھی مدّ نظر رکھنا چاہئیے کہ: