کتاب: کراچی کا عثمانی مذہب اور اس کی حقیقت - صفحہ 96
صورت ہے؟ تو فرمایا کہ: امْلِكْ عَلَيْكَ لِسَانَكَ، وَلْيَسَعْكَ بَيْتُكَ، وَابْكِ عَلَى خَطِيئَتِكَ (ترمذي) ’’اپنی زبان کو قابو میں رکھ۔ تیرا گھر تجھے کافی ہو اور رو اپنے گناہ پر۔‘‘ جب گناہوں پہ پڑی اپنے نظر نگاہوں میں کوئی بُرا نہ رہا مسلمان:۔ جوشخص بھی بظاہر اسلام قبول کر لے ہمیں اسے مسلمان سمجھنا چاہئیے آگے اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے وہی اس کا مقام متعین فرما سکتا ہے۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جہاد کروں یہاں تک کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں۔ وہ یہ کام کر لیں تو انہوں نے مجھ سے اپنے خون اورمال کو محفوظ کر لیا سوائے اسلامی حق کے اور حساب ان کا اللہ پر ہے۔‘‘(عن ابن عمر رضی اللہ عنہ بخاری ص۸)۔ مومن:۔ البتہ مومن کا لفظ بولنے میں احتیاط کرنی چاہئیے کیونکہ اسلام کا تعلق ظاہر سے ہے اور ایمان کا تعلق باطن سے۔ قرآن پاک میں ہے: قالت الاعراب امنا قل لم تؤمنوا ولكن قولوا اسلمنا ولما يدخل الايمان في قلوبكم ـ (الحجرات: ۱۴) ’’بدویوں نے کہا کہ ہم ایمان لائے۔ کہہ دیجئے کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ کہو کہ ہم نے اسلام قبول کیا کیونکہ ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔‘‘