کتاب: کراچی کا عثمانی مذہب اور اس کی حقیقت - صفحہ 93
قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں۔‘‘
بھلا کوئی ان سے پوچھے کہ تم کب سے تھانے دار لگے ہوئے ہو اور تمہیں کس نے ان کی تحقیقات کرنے کیلئے ریمانڈ دے رکھا ہے۔ میرے بھائی! وہ آپ سے معافی کی درخواست نہیں کرتے نہ انہیں آپ کے حضور اقبالی بیان دینے کی ضرورت ہے ان کا اللہ مالک ہے۔ رہائی کے لئے انہیں آپ سے سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں۔
تفسیر ابن کثیر رحمہ اللہ میں مختلف حوالوں سے لکھا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فجر کی نماز ادا فرما رہے تھے کہ ایک خارجی نے انہیں دیکھ کر یہ آیت پڑھی:
لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ـ (الزمر: ۶۶)
’’اگر تو نے شرک کیا تو تیرے عمل ضائع ہو جائیں گے اور تو نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گا۔‘‘
یہ سن کر آپ رضی اللہ عنہ نے نماز ہی میں یہ آیت پڑھ ڈالی کہ:
فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَلَا يَسْتَخِفَّنَّكَ الَّذِينَ لَا يُوقِنُونَ ـ (روم: ۶)
’’پس صبر کر! بیشک اللہ کا وعدہ برحق ہے اور نہ سبک کر دیں تجھے وہ لوگ جو یقین نہیں لاتے۔‘‘
بيّنوا کا جو معنی عثمانیوں کی زبان پر چڑھا ہوا ہے وہ صحیح نہیں ۔ یہ آیتیں یہود کے بارے میں نازل ہوئی تھیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ کتمانِ حق کرتے ہیں اور کتاب اللہ کو چھپاتے ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ اسے بیان کریں اور