کتاب: کراچی کا عثمانی مذہب اور اس کی حقیقت - صفحہ 92
مشرک کہنے کے برابر ہے۔ عام ملنے والوں کو السلام علیکم کہہ لیتے ہیں۔ بزرگوں کو رحمۃ اللہ علیہ کہنے سے گریزاں ہیں۔ حالانکہ یہ دونوں ایک جیسے دعائیہ کلمے ہیں بلکہ سلام کا مرتبہ رحمت سے زیادہ ہے۔ سلام نبیوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جب زندوں کے لئے السلام علیکم کہنے سے پہلے یہ جاننا ضروری نہیں کہ مخاطب موحد خالص ہے یا نہیں تو مُردوں کو رحمۃ اللہ علیہ کہنے سے پہلے یہ معلوم کرنا کیوں ضروری ہو گیا کہ وہ خاص قسم کا موحد ہو۔ کیا بس انہیں مُردوں ہی سے دشمنی ہے؟ اوروں کیلئے ( رحمہ اللہ )لکھنے کی توفیق نہیں مگر عثمانی صاحب کے لئے جلی حروف میں رحمۃ اللہ علیہ لکھنا شروع کر دیا ہے۔ اگر رحمۃ اللہ علیہ کہنے کے لئے جنتی ہونا ضروری ہے تو کیا یہ عثمانی صاحب کو جنت میں دیکھ آئے ہیں یا ان کو الہام ہوا ہے کہ وہ جنتی ہیں یا ان کے پاس غیب کا علم ہے یا ان کے پاس اس چیز کا ثبوت ہے کہ ان کا خاتمہ یقینا ایمان پر ہوا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ ایک انسان جہنمیوں والے عمل کرتا ہے مگر ہوتا جنتی ہے اور ایک دوسرا شخص جنتیوں والے عمل کرتا ہے مگر ہوتا جہنمی ہے کیونکہ آخری اعمال معتبر ہوتے ہیں۔ (صحیحین)۔
بیان:۔ جن بزرگوں کو انہوں نے حوالوں کی حوالات میں ڈال رکھا ہے ان کے بارے میں کہتے رہتے ہیں کہ ہم انہیں اس وقت تک مشرک سمجھتے رہیں گے جب تک انکا تردیدی بیان ہمارے سامنے نہ آجائے کیونکہ قرآن مجید میں ہے کہ:
إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَبَيَّنُوا فَأُولَئِكَ أَتُوبُ عَلَيْهِمْ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ـ (البقرة: ۱۶۰)
’’مگر جن لوگوں نے توبہ کی اور نیکی کی اور بیان کیا پس میں ان کی توبہ