کتاب: کراچی کا عثمانی مذہب اور اس کی حقیقت - صفحہ 83
کل صبح اسے نجات مل (فوت ہو) جائے گی۔( ص ۴۸۔ ) شاہ عبدالرحیم کی مرضی کے مطابق انکی موت مؤخر کر دی گئی۔ (ص ۵۱) وہ اس طرح فنا فی اللہ ہوئے کہ ڈھونڈے سے فرشتوں کو بھی کہیں نہ ملے۔( ص ۵۲۔ ) ایک روز عصر کے وقت وہ چار کروڑ برس کے لئے غائب ہو گئے اور آغاز آفرینش سے قیامت تک کے احوال ان پر ظاہر کئے گئے۔ ص ۵۲۔ اپنے خادم سے فرمایا کہ قسم بخدا اگر زمین کے نچلے طبق میں رہنے والی کسی چیونٹی کے دل میں سو خیالات آئیں تو ان میں سے ننانوے خیالات کو میں جانتا ہوں اور حق سبحانہ سو کے سو خیالات سے باخبر ہے۔( ص ۵۵ ) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے قلم سے یہ انفاس غیر متوقع معلوم ہوتے ہیں۔ دل نہیں مانتا انہوں نے اس طرح کی انہونی باتیں رقم کی ہوں جو صریحًا کذب بیانی کے ذیل میں آتی ہیں۔ شاہ صاحب تو ایک طرف رہے ایسے جھوٹ اور گپوڑ کی امید تو ایک عام مسلمان سے بھی نہیں کی جا سکتی۔ ہم ایسی فضولیات کو نہیں مانتے بلکہ حوالہ جات گزشتہ کی بنا پر شاہ صاحب کو بھی ان لغویات سے بری الذمہ قرار دیتے ہیں۔ یہ سب مقلدین کی شرارتیں ہیں، وہی اس نوع کی تحریروں کے ذمہ دار ہیں اور انہی کو ان سے دلچسپی ہے۔ ہمیں شاہ صاحب کی وہی باتیں پسند ہیں اور صرف انہی باتوں کی وجہ سے ہمارے دل میں ان کا احترام ہے جو کتاب و سنت کی تائید میں لکھی گئی ہیں غیر شرعی باتوں کو ہم ردّی کی ٹوکری میں ڈالتے ہیں۔ یہ بھی عرض کر دوں کہ اگر بفرض محال ان کی تحریروں میں کوئی اس قسم کی ہفوات پائی گئی ہیں تو وہ ہمارے لئے حجت نہیں۔ ہمارے ہادی و مقتدر صرف اور صرف