کتاب: کراچی کا عثمانی مذہب اور اس کی حقیقت - صفحہ 67
مگر مسلمانوں سے نفرت نہیں ہے جبکہ عثمانیوں کو اللہ جانے شرک سے اتنی نفرت ہے یا نہیں جتنی نفرت کہ انہیں مسلمانوں سے ہے شرکیہ حوالوں کو تو یہ صرف بطور کارتوس استعمال کرتے ہیں ان کے بغض و نفرت کا اصل نشانہ مسلمان شخصیات ہوتی ہیں۔ خارجیوں کی مثال سے ممکن ہے کہ عثمانی ماتھے پر بل لے آئیں لیکن آئینہ پر غصہ نکالنے کی بجائے اپنی اصلاح کی فکر کرنی چاہئیے۔ جیسا پرتشدد ان کا مزاج ہے اور جیسے مغرور ان کے خیالات ہیں اگر یہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ہوتے تو خارجیوں کے ساتھ ہوتے اور اگر وہ اس زمانے میں ہوتے تو ان کے ساتھ ہوتے بلکہ یہی ہوتے۔ ان کا قارورہ آپس میں ملتا جلتا ہے ان کا نعرہ ہے لا الٰہ الا للہ ان کا نعرہ تھا لا حکم الا اللہ۔ مگر نہ وہ تحکیم کو صحیح سمجھے اور نہ یہ توحید کوصحیح سمجھے۔ انہوں نے اللہ کی تحکیم کو اور انہوں نے اللہ کی توحید کو عبث بدنام کیا۔ جس طرح سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کے بارے میں فرمایا تھا کہ كلمة حق اريد بها الباطل یہی مقولہ ان پر بھی صادق آتا ہے۔ یعنی بات ان کی بھی سچی تھی مگر مقصد اس سے صحابہ و تابعین کو اسلام سے خارج کرنا تھا بات ان کی بھی سچی ہے مگر مقصد اس سے ائمہ اسلام کو اسلام سے باہر کرنا ہے۔ درحقیقت یہ دونوں ذوالخویصرہ کی اولاد ہیں خوارج ’’توحید خالص‘‘ کی پہلی قسط تھے اور عثمانی ’’توحید خالص‘‘ کی دوسری قسط ہیں۔ ایک اور بات پر غور فرمائیں حدیث کے آخر میں یہ الفاظ ہیں وہ یعنی خوارج اہل اسلام کو قتل کریں گے اور اہل اوثان کو نظر انداز کریں گے۔ تقریباً یہی پالیسی عثمانیوں نے اختیار کر رکھی ہے یہ ورد ہر وقت شرک کا کرتے ہیں مگر