کتاب: کراچی کا عثمانی مذہب اور اس کی حقیقت - صفحہ 63
’’کھانا کھایا جاتا تھا اور ہم اس کی تسبیح سنتے تھے۔‘‘ تو کیا اس سے شرک لازم آگیا۔ جب کہ پکے ہوئے کھانے جیسی شے کا بولنا مُردہ کے سننے سے بھی بڑھ کر ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ بطور معجزہ درختوں اور پتھروں کا بولنا بھی ثابت ہے اور ان باتوں کو برزخی معاملہ قرار دے کر چھٹکارا بھی نہیں پایا جا سکتا۔ عثمانی صاحب سماع موتیٰ کو قبر پرستی کی جڑ قرار دیتے ہیں۔ غالباً اسی لئے انہوں نے اس مسئلہ میں تشدد کا راستہ اختیار کیا ہے۔ ان کے خیال کے مطابق یہیں سے بات بڑھتے بڑھتے کہیں سے کہیں جا پہنچتی ہے یہ بات ان کی کافی حد تک صحیح ہے مگر قاعدہ کلیہ نہیں ہے۔ اس باب میں وارد ہونے والی کچھ صحیح اور کچھ ضعیف احادیث کو ظاہر پر محمول کر کے متعدد اہل حدیث علماء نے سلام کی حد تک قبر کی زندگی کے بارے میں اقوال بیان کیے ہیں مگر بفضلہ تعالیٰ انہوں نے اہلِ قبور سے کبھی مانگا کچھ نہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے: وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللّٰهِ مَنْ لَا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ ـ (الاحقاف: ۵) ـ ’’اور اس سے زیادہ گمراہ کون ہے جو اللہ کے سوا انہیں پکارتا ہے جو اسے قیامت تک جواب نہیں دیں گے اور وہ اس کی پکار سے بے خبر ہیں۔‘‘ نیز فرمایا کہ: إِنْ تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ ـ (فاطر: ۱۴) ـ ’’اگر تم ان کو پکارو تو تمہاری پکار نہیں سنتے اور اگر سن لیں تو قبول نہیں