کتاب: کراچی کا عثمانی مذہب اور اس کی حقیقت - صفحہ 62
استدلال کر کے یا مخصوص حدیثوں کو عام کر کے کوئی بزرگ میت کے سلام وغیرہ سننے کا قائل ہو ہی جائے تو شرک کہاں سے لازم آگیا اور اس پر جہنم کی آگ کیسے فرض ہو گئی؟ اگراربوں کھربوں زندوں کی سماعت سے توحید کی نفی نہیں ہوتی تو مُردوں کی سماعت سے توحید کی نفی کیسے ہو جائے گی؟ کیا اللہ تعالیٰ کی توحید صرف مُردوں کے مقابلہ میں ہے؟ یعنی ایک صفت جو ہم زندہ میں موجود مانتے ہیں اور اس سے ہماری توحید کو صدمہ نہیں پہنچتا ہے وہی محدود سی انسانی صفت اگر کوئی غلطی سے مُردہ میں موجود مان لے تو شرک کہاں سے آ ٹپکتا ہے۔ سن لینا اور بات ہے معبود ہونا اور بات ہے۔ کیا قرآن و حدیث میں کوئی ایسا مضمون ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ فقط سماع موتیٰ کاعقیدہ رکھنے سے ہی انسان مشرک ہو جاتا ہے۔
سماع موتیٰ کا عقیدہ غلط ہے بے بنیاد ہے، عقل و نقل کے خلاف ہے، تجربے اور مشاہدے کے منافی ہے مگر شرک نہیں ہے۔ شرک ظلم عظیم ہے۔ مگر ہر شے شرک نہیں ہے مُردے تو پھر ماضی میں زندہ رہے ہوتے ہیں۔ قرآن مجید تو ہر شے میں ایک طرح کی زندگی ثابت کرتا ہے ۔
وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ـ (بني اسرائيل: ۴۴)
’’ہر چیز اللہ کی حمد بیان کرتی ہے مگر تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو اور اللہ چاہے توان کی تسبیح سنا بھی دیتا ہے۔‘‘
ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
وَلَقَدْ كُنَّا نَسْمَعُ تَسْبِيحَ الطَّعَامِ وَهُوَ يُؤْكَلُ ـ (بخاري)