کتاب: کراچی کا عثمانی مذہب اور اس کی حقیقت - صفحہ 60
سمجھی۔ میں پوچھتا ہوں جس غرائب کا انہوں حوالہ دیا ہے وہ کتاب خود انہوں نے یا ان کے پیروکاروں میں سے کسی نے آج تک دیکھی بھی ہے یا میری طرح صرف اس کا نام ہی سن رکھا ہے۔ اگر دیکھی ہے تو کیا اس کی سند پر غور کیا ہے۔ صرف اس ایک فقرے کی بناء پر امام صاحب رحمہ اللہ کی مدح میں رطب اللسان ہونے سے پہلے ان کا اخلاقی فرض تھا کہ وہ مصنف غرائب سے لے کر امام صاحب تک اس قول کے پورے سلسلہ سند کو بیان کرتے بلکہ یہ بھی بتلاتے کہ اس کتاب کا مصنف کون اور کس مسلک سے وابستہ تھا۔ عثمانی صاحب جس قسم کی جرح کے عادی ہیں وہ معیار اور وہ جوش وخروش یہاں کیوں ناپید ہو گیا ہے۔ کیا انہوں نے اپنوں اور بیگانوں کے لئے الگ الگ پیمانے مقرر کر رکھے ہیں۔
وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ (1) الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ (2) وَإِذَا كَالُوهُمْ أَوْ وَزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ (3) ـ
ہم امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو نہ صرف مسلمان بلکہ ائمہ اسلام میں سے ایک امام سمجھتے ہیں۔ لیکن بات اس وقت عثمانی صاحب کے نقطہ نظر کی ہو رہی ہے۔ عثمانیوں کو معلوم ہونا چاہئیے کہ جن صوفیاء کو آپ مشرک کہتے ہیں امام صاحب رحمہ اللہ ان میں سے کئی ایک کے استاد تھے کشف المحجوب مترجم ص ۹۹ میں لکھا ہے کہ:
وہ اکثر مشائخ طریقت مثلاً ابراہیم بن ادھم رحمہ اللہ ، حضرت فضیل بن عیاض رحمہ اللہ ، حضرت داؤد طائی رحمہ اللہ ، حضرت بشر حافی رحمہ اللہ وغیرہم کے استاد تھے نیز حضرت ہجویری رحمہ اللہ نے خود انہیں بھی صوفیا کا امام قرار دیا ہے۔‘‘
تذکرۃ الاولیاء ص۶۰ میں لکھا ہے کہ امام صاحب رحمہ اللہ نے ابراہیم ادھم رحمہ اللہ کو سیدنا ابرہیم کہہ کر خطاب کیا۔