کتاب: کراچی کا عثمانی مذہب اور اس کی حقیقت - صفحہ 49
لئے ہے۔ (فتح الباری بحوالہ تحفۃ الاحوذی ج ۲ ص۳۷۰)۔ علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’غیر اللہ کی قسم ہمارے اصحاب کے نزدیک مکروہ ہے، حرام نہیں ہے۔‘‘(شرح مسلم ج ۲ ص۴۶)۔ تحفۃ الاحوذی ج۲ ص۳۷۱ پر لکھا ہے: واحاديث الباب تدل على ان الحلف بغير اللّٰه لا ينعقد لان النهى يدل على فساد المنهى عنه واليه ذهب الجمهور وقال بعض الحنابلة ان الحلف بنبينا صلی اللّٰه علیہ وسلم ينعقد وتجب الكفارة ـ ’’باب کی حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر اللہ کی قسم واقع نہیں ہوتی اس لئے کہ یہ جائز نہیں ہے۔ یہی جمہور کا مسلک ہے، بعض حنابلہ نے یہ کہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم واقع ہو جاتی ہے اور کفارہ بھی واجب ہو جاتا ہے۔‘‘ مطلب یہ ہے بعض حنبلی کہتے ہیں بالفرض کوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم اٹھا لے تو یہ باقاعدہ قسم شمار ہو گی اور اس پر قسم والا حکم لاگو ہو گا یہ مطلب نہیں کہ ان کے نزدیک غیر اللہ کی قسم جائز ہے۔ یہ فتویٰ صرف احتیاط کے لئے معلوم ہوتا ہے۔ اگر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے بھی کوئی ایسی بات کہی ہے تو اس کا بھی یہی مقصد ہو گا۔ اوّل تو اس میں شک ہے کہ امام صاحب رحمہ اللہ نے ایسی بات کہی بھی ہے یا نہیں۔ ان کی اپنی کتاب میں یہ قول مذکور نہیں۔ الجواب الباھر میں بھی یہ نہیں لکھا کہ ان کا یہ قول ہے بلکہ لکھا ہے کہ ان سے ایک قول یہ بھی منقول ہے۔ اسی کتاب میں ص ۵۵ پر لکھا ہے کہ جمہور علماء جیسے امام مالک رحمہ اللہ ، امام شافعی رحمہ اللہ ، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ