کتاب: کراچی کا عثمانی مذہب اور اس کی حقیقت - صفحہ 47
ماخوذ ہے اس سے نہ تو حیاتیوں کو خوش ہونا چاہئیے کہ یہ یقینا برزخی معاملہ ہے اور نہ عثمانیوں کو الرجک ہونے کی ضرورت ہے۔ بزرگوں کے معاملہ میں ہر مدّ مقابل کے سامنے گھٹنے ٹیک دینا شکست خوردہ ذہنیت کی غمازی کرتا ہے۔ ایسی بھی برخورداری کیا ہوئی جس بزرگ کی عبارت سے بھی حیاتیے استدلال کر لیں اس کی شامت آجاتی ہے۔ بجائے اس کے کہ یہ اس کی معقول توجیہہ کریں اور صحیح مطلب بیان کریں ان کے پاس اس کا ایک ہی علاج رہ گیا ہے یہ فوراً اپنی شرک والی نوایجاد مشینری حرکت میں لے آتے ہیں کوئی چھوٹا فتویٰ ان کے پاس رہا ہی نہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ شکر کرتے ہیں اسلاف کے خلاف کوئی بات ان کے ہاتھ آجائے سہی۔ اس کے بغیر شاید ان کا کھانا ہی ہضم نہیں ہوتا۔ ’’برتن قلعی کروا لو اور کفر کے فتوے لگوا لو‘‘ میں انہوں نے فرق ہی کوئی نہیں چھوڑا ۔ سوال یہ ہے کہ مخالفین بالفرض صحابہ کرام کے اقوال سے یا نبی علیہ السلام کی روایت سے استدلال کر لیں تو کیا وہاں بھی یہی ظالمانہ رویہ اختیار کیا جائے گا۔ غیر اللہ کی قسم:۔ ان کے گروہ میں سے ایک صاحب نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: مَنْ كَانَ حَالِفاً، فَلْيَحْلِفْ بِاللّٰهِ ، أَوْ لِيَصْمُت ـ (عن ابن عمر صحيحين) ’’ضرورت پڑے تو قسم اللہ کی اٹھانی چائیے یا خاموش رہنا چاہئیے۔‘‘مگر اس کے برعکس امام احمد بن حنبل نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم اٹھانے کو جائز