کتاب: کراچی کا عثمانی مذہب اور اس کی حقیقت - صفحہ 46
سلام کا جواب دوں۔‘‘
یہ روایت ابوداؤد رحمہ اللہ اور بیہقی رحمہ اللہ میں ہے اور بیشک ضعیف ہے تاہم اس سے توحید کو کوئی گزند نہیں پہنچتا اگر کوئی اس سے دنیوی حیات پر استدلال کرتا ہے تو یہ اس کا خیالِ خام ہے اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو امت کا سلام پہنچانے پر قادر ہے ورنہ جس طرح ہم حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا جواب نہیں سُن پاتے ظاہر ہے ہمارے سلام کی آواز بھی ان تک نہیں پہنچتی۔
جہاں تک ص ۲۰ پر مذکور اس روایت کا تعلق ہے من صلى عليّ عند قبري سمعته ومن صل عليّ نائيا ابلغته ـ (بيهقي ـ عقيلي) ’’جو میری قبر کے پاس درود پڑھے میں اسے سن لوں گا اور جو دُور سے درود بھیجے گا وہ مجھے پہنچا دیا جائے گا۔‘‘
اس سے واقعی سماع ثابت ہوتا ہے مگر اس کی سند بالکل بیکار ہے۔ ص ۳۷ پر عثمانی صاحب نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے عقائد سے حیاتیوں کا استدلال نقل کیا ہے:
والايمان بملك الموت بقبض الارواح ثم ترد في الاجساد في القبور فيسألون عن الايمان والتوحيد ـ (كتاب الصلوة ص ۴۵ طبع قاهره)
’’اور اس بات پر ایمان لانا کہ فرشتہ جانیں قبض کرتا ہے پھر وہ جانیں قبروں کے بیچ میں جسموں میں لوٹائی جاتی ہیں پھر ان سے ایمان اور توحید کے بارے میں سوال ہوتا ہے۔‘‘
بھلا اس میں امام صاحب کی کیا خطا ہے۔ یہ مضمون تو احادیث سے ہی