کتاب: کراچی کا عثمانی مذہب اور اس کی حقیقت - صفحہ 45
ہے جہاں تعاد روحہ کی بجائے انه ليسمع قرع نعالهم کا ذکر ہے یعنی میت اپنے جانے والے ساتھیوں کے جوتوں کی آہٹ سنتی ہے۔ یہ دونوں حدیثیں یکساں طور پر بظاہر قبر میں میت کی زندگی پر دلالت کرتی ہیں۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق میت کا جوتوں کی آہٹ کو سننا، دو فرشتوں کا آکر اس کو بٹھانا، اس سے سوال و جواب کرنا اور کافر میت کا ہتھوڑے کی ضرب سے چیخنا اور پھر جن و انس کے سوا سب مخلوق کا اس چیخ کو سننا، اعادہ رُوح کے بغیر تو ممکن نہیں۔ تو جو جواب عثمانی صاحب کے نزدیک بخاری شریف کی حدیث کا ہے وہی مسند احمد کی روایت کا بھی سمجھ لیں۔ قبر کی زندگی کے بارے میں حافظ ابن القیم فرماتے ہیں اگر اس زندگی سے دنیاوی زندگی اور اس کے لوازم مراد ہیں تو یہ یقینا غلط ہے۔ ایسی زندگی میت کو حاصل نہیں ہوتی۔ اگر اس سے مراد دنیوی زندگی کے علاوہ ہے جس میں روح کا اعادہ متعاد زندگی کی طرح نہ ہو اس کا مقصد سوال اور امتحان ہو تو یہ درست ہے اس کا انکار کرنا غلطی ہے۔ یہ زندگی نص صریح سے ثابت ہے۔ (ملحض کتاب الروح: ص۵۲)۔
تائید کے لئے یہ حوالہ پیش کرنے کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی ہے کہ عثمانی حضرات حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کے بھی بہت پیچھے پڑے ہوئے ہیں ۔ آگے ذکر آ رہا ہے۔ اس حوالہ سے ان کی پوزیشن کافی حد تک صاف ہو جاتی ہے۔
عثمانی صاحب کے نزدیک مسند احمد کی یہ روایت بھی قابل اعتراض ہے:
ما من احد يسلم عليّ الا رد اللّٰه عزوجل اليّ روحي حتى ارد عليه السلام ـ (ج ۲ توحيد خالص حصه ۲ ص ۱۹) ـ
’’جو بھی مجھے سلام کہے گا اللہ تعالیٰ میری روح کو لوٹائے گا تاکہ میں اسے