کتاب: کراچی کا عثمانی مذہب اور اس کی حقیقت - صفحہ 43
جانے پر استدلال کرتے ہیں مگر اسی روایت میں دوسری رفع یدینوں کو کھا جاتے ہیں۔ (مسلم)۔
أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ ـ (بقرة: ۸۵) ـ
’’کیا پس تم کتاب کے ایک حصہ پر ایمان لاتے ہو اور ایک حصہ کا انکار کرتے ہو۔‘‘
معلوم ہوتا ہے کہ عثمان صاحب اپنے آباء پر گئے ہیں۔ اصل بات یہ ہے ایک ہے اعمال کا جزا و سزا کے لئے پیش ہوا۔ سو اس میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک و سہیم نہیں اور ایک ہے نبی یا غیر نبی کے لئے بحکم پروردگار درود وسلام اور حسنات جاریہ کا رفعت درجات کے لئے پیش ہونا۔ یہ دو مختلف چیزیں ہیں۔ اس میں شرک ورک کا کوئی قصہ نہیں اس میں جھگڑنا تقریبًا ایسے ہی ہے جیسے کوئی اس بات پر جھگڑا شروع کر دی کہ بارش اللہ تعالیٰ نے برسائی ہے یا بادلوں نے۔ مریض کو اللہ تعالیٰ نے آرام دیا ہے یا ڈاکٹر کی دوا نے۔ یہ اسباب اور مسبب کی بحث فضول ہے۔ میں نہیں سمجھتا اتنی سی بات پر اتنی جلدی کفر کے فتوے لگا دینا کیا معنی رکھتا ہے۔ فتویٰ نہ ہوا بچوں کا کھیل ہو گیا۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا:
الَّذِي خَلَقَنِي فَهُوَ يَهْدِينِ (78) وَالَّذِي هُوَ يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِ (79) وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ (80) وَالَّذِي يُمِيتُنِي ثُمَّ يُحْيِينِ (81) (الشعراء)
’’اس نے مجھے پیدا کیا ، پس وہ مجھے راہ دکھاتا ہے، وہی مجھے کھلاتا ہے اور مجھے پلاتا ہے اور جب بیمار ہو جاتا ہوں تو مجھے شفا دیتا ہے اور وہی مجھے مارے گا پھر مجھے زندہ کرے گا۔‘‘
اب اگر کوئی کہے مجھے فلاں عالم نے راہ دکھلائی، مجھے ماں باپ نے کھلایا