کتاب: کراچی کا عثمانی مذہب اور اس کی حقیقت - صفحہ 42
اولاد جو اس کے لئے دعا کرے۔‘‘
یعنی ان کاموں کا ثواب جاری رہتا ہے اور میّت کو وصول ہوتا رہتا ہے۔ خود عثمانی صاحب نے (توحید خالص دوم ص۱۲ پر) بخاری شریف کے حوالے سے التحیات کے بارے میں یہ حدیث نقل فرمائی ہے:
فَإِنَّكُمْ إِذَا قُلْتُمُوهَا أَصَابَتْ كُلَّ عَبْدٍ للّٰهِ صَالِحٍ فِي السَّمَاءِ وَالأَرْضِ ـ (ص ۱۱۵)
’’جب تم یہ کہو گے تو اللہ تعالیٰ کے ہر نیک بندے کو سلام پہنچ جائے گا وہ زمین میں ہو یا آسمان میں۔‘‘
نیز عثمانی صاحب نے (یہ قبریں یہ آستانے ص۳۱ میں) ابوداؤد و نسائی وغیرہ کی ایک اور حدیث کے اس ٹکڑے سے استدلال کیا ہے:
لَا تَجْعَلُوا قَبْرِي عِيدًا.
’’میری قبر پر میلہ مت لگاؤ۔‘‘
اس سے متصل آگے یہ الفاظ ہیں وصلوا على فان صلواتكم تبلغني حيث كنتم ـ ’’تم مجھ پر درود بھیجنا تم جہاں بھی ہو گے تمہارا درود مجھے پہنچ جائے گا۔‘‘لطف یہ کہ ان الفاظ کے بارے ص۶ پر فرماتے ہیں کہ اس میں عبداللہ بن نافع راوی ضعیف ہے۔ حالانکہ یہ صحیح مسلم کا راوی ہے اور ثقہ ہے۔ حدیث کے ایک حصہ کو ماننا اور ایک حصہ کو نہ مانا حنفیوں کی خاص عادت ہے۔ مثلاً یہ لوگ سیدنا ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں مذکور دہری اقامت پر تو ایمان لاتے ہیں مگر اذان میں ترجیع کے قائل نہیں۔ ابوداؤد وغیرہ۔ یا جیسے سیدنا مالک بن حویرث کی روایت سے تکبیر اولیٰ کے وقت کانوں تک ہاتھ لے