کتاب: کراچی کا عثمانی مذہب اور اس کی حقیقت - صفحہ 38
فلاں کو نہیں بخشوں گا۔ تحقیق میں نے فلاں کو بخش دیا اور تیرے عمل ضائع کر دئیے۔ (مسلم)۔
اس سے معلوم ہوا کہ اپنی نیکی پر گھمنڈ نہیں کرنا چاہئیے ورنہ لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں اور الٹا چکر چل جاتا ہے۔ خوش فہمی بُری چیز ہی۔
ردّ عمل:
عثمانی فرقہ دراصل بریلویوں کا ردّعمل ہے۔ بریلویوں نے مشرکوں کو مسلمان کہا۔ عثمانیوں نے مسلمانوں کو مشرک کہا ہے۔ اوّل الذکر نے یہ کام عشق کے افراط میں کہا اور مؤخر الذکر کو توحید کا ہیضہ ہو گیا۔ دونوں ہی غلو اور انتہا پسندی کا شکار ہو گئے۔ بریلوی علماء اہلِ توحید کو بُرا کہتے ہیں جواب میں زیادہ سے زیادہ انہیں بُرا کہا جا سکتا تھا۔ جَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَاـ (الشوریٰ: ۴۰)
مگر عثمانی مجاہدوں نے انصاف کے تمام تقاضے ترک کر کے ان بزرگوں کی خبر لینا شروع کر دی جن کی بریلوی پوجا کرتے ہیں۔ حالانکہ ان بیچاروں کا کیا قصور۔ اپنی لڑائی اپنے درمیان میں رکھنی چاہئیے تھے۔ ڈگا کھوتے توں غصہ کمہار تے۔
چور کی ماں:
اپنے خیال کے مطابق یہ چور کی ماں کو مارتے ہیں۔ مگر ماں پہچاننے میں انہیں غلطی لگ گئی ہے۔ خود عثمانی صاحب لکھتے ہیں:
کیا کسی ایک ولی اللہ نے بھی اس بات کا حکم دیا ہے ولی اللہ تو نمازیں پڑھنے والے روزے رکھنے والے اللہ سے ڈرنے والے اور اللہ ہی کو پکارنے والے ہوتے ہیں۔ و ہ یہ بات کیسے پسند کر سکتے ہیں کہ تم یہ کام کرنے کی بجائے ان کو پکارو اور ان سے مانگو۔ ان کی تو اللہ تعالیٰ نے یہ شان بیان کی ہے: