کتاب: کراچی کا عثمانی مذہب اور اس کی حقیقت - صفحہ 33
بشارت مل چکی ہو۔ نہ میں یہ کہتا ہوں جو میرے حسن ظن کے مطابق صحیح ہیں ان کی ہر بات بھی لازمًا صحیح ہی۔ پیغمبروں کے سوا کوئی معصوم نہیں۔ ہر امتی سے صواب اور خطا کا امکان ہے۔ البتہ یہ ضرور کہتا ہوں کہ اگر یہ باتیں ان بزرگوں نے واقعی کہی ہیں تو انہیں مشرک کہنے کا کچھ جواز ہے؟ اور اگر ان باتوں کی نسبت ان کی طرف صحیح نہیں تو جو مشرکانہ باتیں ان کی طرف منسوب ہیں ان کے بارے میں ہم کیونکر یقین کر لیں کہ وہ ضرور انہوں نے کہی ہوں گی۔ کیوں نہ ہم ان کے بارے میں اچھا خیال رکھیں اور روایتی سیانے کوے کی طرح غلاظت پر گرنے کی بجائے خزما صفا ودع ما كدر کے مصداق اچھے خیالات ہی کو کیوں نہ ہم ان کا اصل مذہب قرار دیں۔
وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ ـ (الزمر: ۵۵)
اَلَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ ـ (الزمر: ۱۸) ـ
احمد رضا خان صاحب:
اس سلسلہ میں ہم پر یہ اعتراض وارد کیا جاتا ہے کہ احمد رضا خان صاحب کے کلام میں بھی کوئی نہ کوئی بھولے چوکے صحیح بات مل جاتی ہے تو پھر ان کے بارے میں ہم حسن عقیدت کیوں نہیں رکھتے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جناب خان صاحب ماضی قریب میں گزرے ہیں ان کے نظریات سے ہم بخوبی آگاہ ہیں۔ ان کے بارے میں ہم یہ تاویل نہیں کر سکتے کہ یہ ملفوظات یہ فتاویٰ اور یہ احکام خواہ مخواہ کسی نے ان کے ذمہ لگا دیے ہوں گے۔وہ یقینا ویسے ہی تھے جیسے وہ اپنی کتابوں میں نظر آتے ہیں۔ کفرو شرک ہمیں پسند نہیں نہ قدیم نہ جدید، نہ تھوڑا نہ زیادہ۔ البتہ پہلے لوگوں کے بارے میں ہم کہہ