کتاب: کراچی کا عثمانی مذہب اور اس کی حقیقت - صفحہ 30
(تفہیمات الہیہ)۔
’’مشرکوں کا وہ فرقہ مسلمانوں کے ساتھ اس امر میں تو موافق ہے کہ بڑے بڑے امور کی تدبیر اور قطعی حکم کرنے کا منصب تو اللہ ہی کو ہے اس نے کسی کو اختیار نہیں دیا لیکن وہ باقی امور میں مسلمانوں کے موافق نہیں ان کا مذہب ہے کہ پہلے صلحاء نے جو خداکی خوب عبادت کی ہے، اس سے بارگاہِ الٰہی میں مقرب ہو گئے ہیں، اللہ نے الوہیت کا مرتبہ ان کو عطا کر دیا ہے۔ اس واسطے وہ بہ نسبت اور مخلوقات کے پرستش کے مستحق ہو گئے ہیں۔ جیسے کوئی شخص کسی شہنشاہ کی نہایت خدمت کرتا ہے تب شہنشاہ اسے ملکی خلعت عطا کر کے کسی شہر کی حکومت اور انتظام اس کے متعلق کر دیتا ہے اس لئے وہ مستحق ہو جاتا ہے کہ اس شہر کے لوگ اس کی خدمت اور اطاعت کریں۔ مشرکین کا قول ہے کہ بغیر ان کی پرستش شامل کئے عبادت مقبول نہیں ہوتی۔ بلکہ خدا کا مرتبہ بہت ہی بلند ہے۔ اس کی عبادت سے تقرب الٰہی حاصل نہیں ہوتا البتہ ان لوگوں کی پرستش ضرور ہے تاکہ قرب الٰہی کا ذریعہ بن جائیں۔‘‘(حجۃ اللہ البالغہ، باب توحید: ص۵۹)۔
’’شرک کی حقیقت یہ ہے کہ کسی بڑے بزرگ کی نسبت یہ اعتقاد ہو کہ جو عجیب و غریب آثار (کرامات) اس سے صادر ہوتے ہیں وہ اس لئے صادر ہوتے ہیں کہ اس میں ایسی کمالی صفت حاصل ہو گئی ہے جو دوسرے انسانوں میں نہیں ہوتی بلکہ واجب اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اس کے علاوہ میں نہیں پائی جا سکتی۔ اس کا جب ہی امکان ہے کہ اللہ تعالیٰ الوہیت کا خلعت اس کو پہنا دے اور اس کو اللہ اپنی ذات میں ملا لے (فنا فی اللہ ہو جائے) یا ایسا ہی کوئی اور بے ہودہ اور