کتاب: کراچی کا عثمانی مذہب اور اس کی حقیقت - صفحہ 29
اس کے متعلق فرمایا: ينبغى لكل مؤمن ان يجعل هذا الحديث مراة قلبه ـ (فتوح الغيب) ’’ہر مومن کو چاہئیے کہ اس حدیث کو اپنے دل کا آئینہ بنا لے۔‘‘ مرض الموت میں اپنے بیٹے شیخ سیف الدین عبدالوہاب کو یہ وصیت فرمائی: عليك بتقوى الله عزوجل الخ ۔ ’’اللہ سے ڈر، اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈر ۔ اللہ کے سوا کسی سے امید نہ رکھ۔ سب کام اللہ کو سونپ دے، صرف اس پر اعتماد کر، ہر شے اسی سے مانگ۔ اللہ کے سوا کسی کی مدد پر بھروسہ نہ رکھ۔ توحید کو لازم پکڑ۔ توحید کو لازم پکڑ۔‘‘(فتوح الغیب) فرمایا: ويرفع القبر من الارض قدر شبر ...... ويسنم تسنيم القبر دون تسطيحه ..... وان جصص كره ـ (غنية الطالبين: ص ۷۸۲) ’’اور قبر بقدر ایک بالشت کے بلند کی جائے …… قبر کو کوہان نما بنایا جائے چوس نہ بنایا جائے…… پختہ کرنا مکروہ ہے۔‘‘ ان واشگاف تصریحات کی موجودگی میں کوئی معقول آدمی کہہ سکتا ہے کہ شیخ موصوف مشرک تھے؟ عثمانی صاحب نے شاہ ولی اللہ کے بھی بہت حوالے دئیے ہیں آگے ان کا ذکر آئے گامگر شاید ان کی نظران حوالوں پر نہیں پڑی ’’جو لوگ اجمیر یا سالار مسعود کے مزار پر یا ایسے ہی دوسرے مقامات پر ان سے حاجتیں مانگنے کے لئے جاتے ہیں ان کا گناہ قتل اور زنا کے گناہ سے بڑھ کر ہے یہ کام اور خود ساختہ معبودوں کی پوجا ایک ہی بات ہے۔ بالکل لات و عزیٰ کی پرستش کی مانند ہے۔‘‘