کتاب: کراچی کا عثمانی مذہب اور اس کی حقیقت - صفحہ 27
بلکہ مشرک مانا اور ہم نے بزرگوں کو صرف بزرگ مانا جیسا کہ وہ فی الواقع ہیں۔ اس کی مثال حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے دی جا سکتی ہے۔ عیسائیوں نے انہیں اللہ کا بیٹا کہا، یہودیوں نے ولد الحرام کہا اور مسلمانوں نے پیغمبر کہا۔ اسی طرح اولیاء کے بارے میں بھی افراط وتفریط مناسب نہیں۔
انہیں اگر معبود نہیں سمجھنا چاہئیے تو مشرک بھی نہیں سمجھنا چاہئیے۔ قرآن پاک سے ہمیں یہی تعلیم ملتی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ:
إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ ـ (الانبياء: ۹۸)
’’تم اور تمہارے معبود جہنم کا ایندھن ہیں۔‘‘
لیکن پرستش چونکہ اچھے لوگوں کی بھی کی جاتی ہے اس لئے ان کے بارے میں فرما دیا:
إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِنَّا الْحُسْنَى أُولَئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ ـ (۱۰۱)
’’ نیک لوگ اس سے دُور رکھے جائیں گے۔‘‘
یہ بھی حوالے ہیں:
مسلمانوں میں سب سے زیادہ پوجے جانے والے شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ ہیں اور عثمانی صاحب کو بزرگوں کے بارے میں جو سب سے بڑی شکایت ہے وہ ان کا نظریہ وحدۃ الوجود ہے۔ شیخ جیلانی غنیۃ الطالبین (مترجم) میں فرماتے ہیں:
ولا يجوز وصفه بانه في كل مكان بل يقال انه في السماء على العرش ـ (باب معرفۃ الصمانع: ص۱۲۶)
’’یہ کہنا جائز نہیں کہ وہ ہر جگہ حاضر ہے بلکہ یہ کہنا چاہئیے کہ وہ آسمانوں میں عرش پر ہے۔‘‘