کتاب: کراچی کا عثمانی مذہب اور اس کی حقیقت - صفحہ 25
اور نام بزرگوں کا لیتے ہیں۔ حالانکہ بزرگوں کے فرشتوں کو بھی ان باتوں کی خبر نہیں۔ بلکہ نقل کے لئے بھی کچھ عقل چاہئیے ایسی نقلیں کرتے ہیں جو تصور میں بھی نہیں آ سکتیں معجزات کو بھی مات کر رکھا ہے کیا کوئی شریف آدمی ایک سیکنڈ کے لئے بھی مان سکتا ہے کہ خانہ کعبہ اپنی جگہ سے اکھڑ کر لوگوں کا طواف کرتا پھرتا ہے۔ سردآہ کھینچ کر دوزخ کی حرارت کو زائل کر دیتا۔ پیغمبروں کی صفات کو حجابات کہنا، اپنے جھنڈے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے سے بلند کہنا، چالیس سال تک ایک ٹانگ پر کھڑے رہنا، مُردوں کو زندہ کر دینا، پانی پر چلنا، ہوا میں اُڑنا، پانی بن جانا، شیر بن جانا، آگ میں نہ جلنا، غائب ہو جانا، روزانہ ایک ہزار رکعت پڑھنا، ایصالِ ثواب پر مُردوں کو لڑتے دیکھنا، ابلیس اور فرعون کو حق پر سمجھنا، چالیس برس تک ایک لمحہ کے لئے بھی آرام نہ کرنا، اور عشاء کے وضو سے صبح کی نماز پڑھنا، ایک اشارے سے آسمان پکڑ کر کھینچ سکنا، دو انگلیوں کے درمیان اٹھارہ ہزار عالم دیکھنا، ایک قدم چل کر عرش سے تحت الثریٰ تک پہنچنا، پلکوں پر زمین اور سات افلاک اٹھا لینا، ایک عورت کا حمل دوسری عورت کے پیٹ میں منتقل کر دینا، بارہ سال پانی میں کھڑا رہنا، بارہ سال بعد ڈوبی کشتی کو مع سواریوں کے زندہ تیرا دینا، سونا بنا دینا، بیوی بچے کو مار دینا، چالیس روز بعد صرف ایک بادام کھانا، مسجد میں گدھی سے مصروف ہونا، اندرون شہر آدھی رات اور بیرون شہر دوپہر کا ونا، خواب میں مرحوم مصنفین سے ان کی ضخیم کتب کا پڑھنا، عقل انسانی میں آنے والی باتیں نہیں۔ اگر کسی کو ان باتوں کی صداقت پر اصرار ہو تو کتابوں کے حوالے دینے اور بحث وتکرار کرنے کی بجائے موجودہ پیرانِ طریقت کو کراماتی تجربات کی