کتاب: کراچی کا عثمانی مذہب اور اس کی حقیقت - صفحہ 24
عرض ہے کہ یہی ایک بات جھوٹ اور سچ کا فیصلہ کر دینے کے لئے کافی ہے۔ میں نہیں سمجھتا حضرت علی ہجویری رحمہ اللہ جیسے عظیم بزرگ کے قلم سے اتنا سفید جھوٹ بھی نکل سکتا ہے۔ ایسا جھوٹ جو فورًا پکڑا جا سکے کوئی احمق ہی بول سکتا ہے۔ پوری دنیا کے سجادہ نشین اور مرشد اکٹھے ہو کے آجائیں انشاء اللہ وہ اس ٹیسٹ میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ جب یہ بات صریحًا جھوٹ ہے تو ان کتابوں میں بیان ہونے والی باقی کرامتوں کا بھی کیا بھروسہ ہے۔ لازمًا تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان کتابوں کی حیثیت داستانِ امیر حمزہ یا قصہ یوسف علیہ السلام وزلیخا سے زیادہ نہیں ہے۔ عقلمند کے لئے اشارہ کافی ہوتا ہے غور کیا جائے تو اسی ایک نکتہ سے عثمانیت کی صف بھی لپٹ جاتی ہے اور بریلویت کا بھی بولورام ہو جاتا ہے۔ یہ قلندرانہ باتیں: کتابوں میں درج شدہ ان قلندرانہ باتوں اور کرامانی داستانوں میں دراصل انبیائے کرام کے معجزات کی بھونڈی نقل اتاری گئی ہے اور بڑی مکاری کے ساتھ ان کا بے ہودہ مذاق اڑایا گیا ہے۔ یہ داستان گو حضرات کی دماغی اختراعات ہیں یہ سوداگرانِ کتب کی شرارتیں ہیں یہ مُردہ فروشوں کی خباثتیں ہیں۔ حقائق سے ان کا دُور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ آج کسی کا بیان اخبار میں چھپے۔ قابل اعتراض ہونے کی صورت میں اگلے روز اس کی تردید آ جاتی ہے۔ سینکڑوں برس پُرانی اور قابل اعتراض باتوں کی حقیقت ہی کیا ہے۔ معاف رکھنا جس طرح گلی کوچوں میں گھوم پھر کر بچوں کو راضی کرنے والے مداری انسانوں جیسی حرکات بندروں سے کرواتے ہیں اسی طرح جہلاء کو خوش کرنے کے لئے یہ کرامات کے لکھاری نبیوں کے معجزات کی نقل فرضی کرداروں سے اترواتے ہیں