کتاب: کراچی کا عثمانی مذہب اور اس کی حقیقت - صفحہ 21
جن کے نظریات واقعی اسلام کے لئے اجنبی تھے، سادھوانہ تھے، راہبانہ تھے، مشرکانہ بلکہ شریکانہ تھے اور وحدۃ الوجود، وحدۃ الشہود اور حلول پر مبنی تھے۔ جسے شبلی، ابن العربی، حسین بن منصور حلاج وغیرہ۔ مگر یہ لوگ اپنے وقت میں ہی بدنام ہو گئے۔ اچھے لوگوں نے انہیں پسند نہیں کیا ان کا سختی سے نوٹس لیا گیا۔ آئمہ ہدیٰ نے ان کی پرزور تردید فرمائی۔ حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتابیں اس پر شاہد عدل ہیں۔ مثلًا الجج النقلية والعقلية فيما ينافى الاسلام من بدع الجهمية والصوفيه ـ حلاج کو تختہ دار پر ھی چڑھایا گیا۔ ستم یہ ہے کہ بریلوی ذہن کے حاملین نے ایسے آوارہ مزاج متصوفین کو بھی اپنے دل میں جگہ دی ہے اور انہیں بلند مقام عطا کر دیا ہے جس سے صحیح بزرگوں کے بارے میں بھی بے اعتباری پیدا ہو گئی ۔ نانگے شاہ:۔ آنکھوں دیکھا ظلم یہ ہے کہ فی زمانہ بھی بعض ایسے نام نہاد انسان جو شرفا کی مجلس میں بیٹھنے کے قابل نہیں ہوتے انہیں پیر طریقت کے روپ میں پیش کر دیا جاتا ہے جس سے ایک عام آدمی یہ قیاس کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ جب اس قسم کے نالائقوں کو مرنے کے بعد اتنے ڈھیر سارے القاب مل جاتے ہیں اور ان کا اتنا بڑا مزار بن جاتا ہے اور پھر شہر کے ممتاز خطیب انہیں خراجِ عقیدت ادا کرنے آتے ہیں تو شاید پرانے زمانے کے لوگ بھی اس قماش کے لوگ ہوتے ہوں گے۔ مگر میں پھر کہتا ہوں کہ کم ازکم اہلِ علم کو ایسا نہیں سوچنا چاہئیے۔ انہیں نیک وبد کی تمیز کرنی چاہئیے کجا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ ، اور کجا گوجرانوالہ کی سوغات بابا نانگے شاہ۔ جب کہ آج بھی اس کے شاہد موجود ہیں یہ