کتاب: کراچی کا عثمانی مذہب اور اس کی حقیقت - صفحہ 18
کمایا اور تم نہیں پوچھے جاؤ گے اس سے جو وہ کرتے تھے۔‘‘ پچھلے کھاتے:۔ جس طرح فوت شدگان کی نیکیاں ہمارے کام نہیں آ سکتیں اسی طرح ان کی برائیوں سے بھی ہمیں کوئی فائدہ یا نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ مرحومین کے ’’کفر وشرک‘‘ پر اپنے مذہب کی بنیاد رکھنا کم عقلی ہے اور اس حماقت پر جوتے کھانے کو راہِ توحید میں مار کھانے کے مترادف سمجھنا کم عقلی وبے وقوفی کی انتہا ہے۔ فرعون نے موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا تھا ۔ ما بال القرون الاولى؟ پہلے لوگوں کا کیا حال ہے؟ تو آپ نے پچھلے کھاتے نہیں کھولے تھے بلکہ فرمایا: عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي فِي كِتَابٍ لَا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنْسَى (طٰہٰ: ۵۲) ’’اس بات کا علم میرے رب کے پاس ہے، میرا رب نہ چوکتا ہے اور نہ بھولتا ہے۔‘‘ نباشی:۔ عثمانی صاحب کو کوئی مجبوری نہ تھی نہ جانے انہیں بیٹھے بٹھائے یہ شغل اختیار کرنے کی کیا سجھی۔ گڑھے مُردے اکھاڑنے شروع کر دئیے۔ یہ ایک قسم کی نباشی ہی تو ہے۔ وقت کا اس سے بہتر مصرف نکل سکتا تھا کیا ہی اچھا ہوتا اس کی بجائے اگر وہ کراچی میں سمندر کے کنارے مچھلیاں پکڑتے یا گھونگھے اور سیپیاں جمع کرتے رہتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم م ارشاد فرماتے ہیں: (مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ (مؤطا)۔ ’’اچھا مسلمان وہ ہے جو بے مقصد کام نہ کرے۔‘‘