کتاب: کراچی کا عثمانی مذہب اور اس کی حقیقت - صفحہ 125
مسجد کو مسجد ضرار سے تعبیر فرمایا ہے جہاں مسلمانوں کو کھڑے ہونے کی اجازت ہی نہیں۔ (توبہ ص۱۰۸) بقول بعضے خود ان کے ایک معتبر گورو نے کہا یہ مسجدیں ان کے نزدیک استنجا خانوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں۔ اس سے بڑھ کر ستم یہ کہ پھر اہلحدیث وغیرہ حضرات کو ساتھ ملا کر جماعت بھی کرا دیتے ہیں لوگ انہیں اہلحدیث سمجھ کر ان کے پیچھے نماز پڑھ لیتے ہیں میں ان سے دریافت کرتا ہوں کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی مشرکوں کو جماعت کرائی تھی۔ امام پیشوا ہوتا ہے، امام دلیل ہوتی ہے اس بات کی کہ جو مذہب مقتدیوں کا ہے وہی مذہب امام کا ہے تو کبھی اتفاقًا یا شاذ ونادر نہیں بلکہ جان بوجھ کر مشرکوں کی امامت کو معمول بنا لینے سے کیا امام صاحب خود مشرک نہ ہو گئے۔ امام مسلمان ہو اور مقتدی مشرک ہو کیا اس طرح جماعت ہو جاتی ہے۔ کیا یہ جماعت جماعت کے حکم میں ہے اور کیااس ڈرامے سے انہیں جماعت کا ثواب مل جاتا ہے؟ کیا یہ ان کا اخلاقی فرض نہیں کہ پہلے بتلا دیا کریں کہ لوگو! میں مسلمان ہوں اور تم سب مشرک ہو تاکہ پھر جس کا جی چاہے اقتداء کرے اور جس کا جی چاہے نہ کرے۔ نمازیوں کو دھوکہ میں رکھنا اور فراڈ کرنا تو بہت بُری بات ہے یہ شریف آدمی کے شایان شان نہیں۔ حدیث نبوی ہے کہ من غش فليس منا (عن ابي هريرة ـ ترمذي) ـ’’جو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔‘‘اہلحدیثوں کو مشرک سمجھنے کے باوجود اہلحدیث مساجد میں خود کو اہلحدیث ظاہر کرنا دھوکہ دہی کے علاوہ بدترین ریاکاری بھی ہے جو بذاتِ خود شرک ہے۔ یہ بریلوی مساجد کا رخ نہیں کرتے اہلحدیثوں میں گھس کر فتنہ و ضلالت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور امامت کے شوق میں رفع یدین کے مخالف ہونے کے