کتاب: کراچی کا عثمانی مذہب اور اس کی حقیقت - صفحہ 123
کے نام سے ایک فرقہ قائم ہے ان کی ان کے ساتھ بھی بن نہیں آئی۔ میں حیران ہوں کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے مگر اس کے ننانوے نام ہیں ہم کئی ہیں ہمارا نام ایک ہو یہ کیا فلسفہ ہے۔ کیا ناموں کا تعدد بھی شرک کو مستلزم ہے؟ اچھی اور امتیازی صفتوں کی بناء پر خود قرآن و حدیث میں مسلمانوں کو بے شمار ناموں سے یاد کیا گیا ہے مثلاً مومنین، قانتین، مجاہدین، مہاجرین، انصار، عبادالرحمن، صحابہ، تابعین، اہل قرآن، اہل بدر، حزب اللہ، اصحاب الشجرہ، نبیین، صدیقین، شہداء، صالحین، صدیق، فاروق، حواری، امین، طیار، سیدالشہداء وغیرہ۔
نیز یاد رہے کہ مسلمان صرف امت محمدیہ کا نام نہیں اہل حق کا ہمیشہ یہی نام رہا ہے مثلاً حضرت نوح علیہ السلام مسلمان تھے۔ (یونس: ۷۲)
ابراہیم علیہ السلام ، اسماعیل علیہ السلام ، اسحاق علیہ السلام ، یعقوب علیہ السلام اور ان کی اولاد مسلمان تھے۔ (بقرۃ ۱۳۱ تا ۱۳۳)۔
لوط علیہ السلام مسلمان تھے (زاریات: ۳۶)
یوسف علیہ السلام مسلمان تھے۔ (یوسف: ۱۰۱)
قوم موسیٰ مسلمان تھی۔ (یونس: ۸۴)
اور قومِ عیسیٰ بھی مسلمان تھی۔ (مائدہ:۱۱۱)
(علیہم الصلاۃ والسلام) تاہم اللہ تعالیٰ نے انہیں امتیاز کی بناء پر اہلِ کتاب بھی کہا، نصاریٰ بھی کہا، حواری بھی کہا، اہلِ تورات بھی کہا۔ (بخاری ص۱۱۱) اہلِ انجیل بھی کہا(مائدۃ:۴۷) حنیف بھی کہا۔
کہنے کامقصد یہ ہے کہ ناموں سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہاں اگر کوئی نام اسلام کی ضد ہو ، کتاب و سنت سے رابطہ کو کاٹنے والا ہو، مسلمانوں کی وحدت کو