کتاب: کراچی کا عثمانی مذہب اور اس کی حقیقت - صفحہ 120
بھی اس کے رگڑے میں آجائیں گے یہ اسلامی کتب خانے اور یہ تاج کمپنیاں سب بند ہو جائیں گی بلکہ خلفائے راشدین کے مشاہرے بھی زیر بحث آئیں گے ان کے بارے میں عثمانیوں کو ازسرِ نو غور کرنا پڑے گا کہ ان کے پیچھے بھی نماز جائز تھی یا نہیں (معاذ اللہ) کیونکہ وہ اپنے دورِ خلافت میں نمازوں کے امام بھی ہوا کرتے تھے۔ اگر کوئی کہے کہ وہ تو حکومت کے اور بھی کئی کام کرتے تھے تو گزارش ہے کہ ان کے پیش نظر سب سے اہم کام نماز ہی ہوتا تھا چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عمال کو لکھا تھا کہ: ان اهم اموركم عندي الصلوة ـ (مؤطا امام مالك) ـ ’’میرے نزدیک تمہارا سب سے اہم کام نماز ہے۔‘‘ نیز مسجدوں میں بھی صرف اذان اور نماز نہیں ہوتی دیگر خدمات بھی ہوتی ہیں، صفائی ہوتی ہے، حفاظت ہوتی ہے، انتظام ہوتا ہے، تعلیم ہوتی ہے، تدلیس ہوتی ہے بلکہ سب سے بڑی بات یہ کہ باقاعدہ ملازمت اور ڈیوٹی ہوتی ہے۔ میں معترضین سے درخواست کرتا ہوں کہ مشورہ دینے یا فتویٰ لگانے کی بجائے خود کسی قابل ہو کہ مسجدوں میں تشریف لائیں اور باقاعدگی کے ساتھ پنجوقتہ اذانیں دیں اور پابندی کے ساتھ پوری نمازیں پڑھائیں اور بغیر تنخواہ سارا کام کریں تاکہ پتہ چلے توحید خالص والوں کے دل میں اسوہ ہائے حسنہ کی کتنی قدر ہے خالی تنقید کا تو کوئی فائدہ نہیں۔ دراصل اس کی تہہ میں جو بات نظر آتی ہے وہ یہی ہے کہ عثمانی صاحب کے بڑوں کا یعنی قدمائے حنفیہ کا یہی مذہب تھا کہ اسلامیات پر اجرت لینا جائز نہیں۔ (ہدایہ ج۳ ص۳۵۲)۔