کتاب: کراچی کا عثمانی مذہب اور اس کی حقیقت - صفحہ 119
تیرے پاس جو قرآن ہے جا اس کے عوض میں نے تیرا اس عورت سے نکاح کیا۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن پڑھا کراجرت لی جا سکتی ہے۔
ابوداؤد میں ایک روایت آتی ہے کہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے اصحاب صفہ میں سے کچھ لوگوں کو قرآن مجید پڑھایا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ان سے کسی قسم کا معاوضہ لینے سے منع فرمایا۔ مگر یہ روایت صحیح نہیں۔ علامہ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قرآن کی تعلیم پر ا جرت نہ لینے کی روایتیں ضعیف اور ناقابلِ احتجاج ہیں۔ بالفرض وہ تمام مل کر کسی قابل وں تو بھی جواز والی روایتیں مقابلتاً زیادہ صحیح اور قوی تر ہیں نیز بقول حافظ ابن حجر رحمہ اللہ وہ روایتیں مختلف حالات کے بارے یمں ہیں اور ان میں تاویل کا احتمال ہے۔ (تحفۃ الاحوذی ج۳ ص۱۶۹) ۔ عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اتخذ مؤذنا لا ياخذ على اذانه اجرا (ترمذي)
’’وہ مؤذن رکھو جو ا ذان پر اجرت نہ لے۔‘‘
مگر ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اذان سکھلائی، میں نے اذان دی، جب اذان سے فارغ ہوا تو آ پصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک تھیلی دی جس میں کچھ چاندی تھی۔ (نسائی) ۔ معلوم ہوا کہ یہ حکم استحباب کے لئے ہے۔
دینی ملازمتوں پر اجرت نہ لینے کا اگر کوئی جبری قانون ٹھونس دیا جائے تو اس سے صرف غریب مولوی اور مؤذن ہی متاثر نہیں ہوں گے بلکہ سکولوں، کالجوں ا ور یونیورسٹیوں میں اسلامیات پڑھانے والے اساتذہ اور پروفیسرز بھی اس کی زد میں آئیں گے بلکہ قرآن و حدیث کی اشاعت کا کاروبار کرنے والے ادارے