کتاب: کراچی کا عثمانی مذہب اور اس کی حقیقت - صفحہ 118
جو امام اور مؤذن اجرت پر دین کا کام کرتے ہیں یہ قرآن آیات کا انکار ہے۔ حالانکہ قرآن مجید میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ امام اور مؤذن تنخواہ نہ لیں۔ قرآن مجید میں جو بات بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ پیغمبروں نے اپنی (کافر) قوموں سے کہا کہ ہم تم سے معاوضہ نہیں مانگتے یہ حرمت کی دلیل نہیں ہے۔ نہ مانگنا اور چیز ہے حرام ہونا اور چیز ہے۔ پیغمبروں نے اگرمطالبہ نہیں کیا تھا تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ حرام تھا بلکہ اس لئے کہ وہ حد درجہ بے لوث تھے نیز پیغمبروں کا اپنی کافر اور دشمن قوموں سے اجرت کا کلیم نہ کرنا اور کسی امام اور مؤذن کا ایک اسلامی ادارے میں بطور ملازمت منسلک ہو کر مشاہرہ وصول کرنا دو مختلف چیزیں ہیں۔ بينهما بون بعيد ......... دینیات کی ملازمت پر ا جرت وصول کرنے سے قرآن مجید اور صحیح حدیث میں منع نہیں کیا گیا بلکہ اسکے برعکس ملاحظہ فرمائیے کہ سب سے بڑی چیز قرآن مجید ہے اسکے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ:
ان احق ما اخذتم عليه اجرا كتاب اللّٰه ـ (بخاري ص۴۵۸)
’’تم کتاب اللہ پر مزدوری بخوبی لے سکتے ہو۔‘‘
حق مہر خالص مالی معاملہ ہے قرآن مجید میں ہے کہ:
أَنْ تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُمْ (النساء)
’’کہ تلاش کرو تم اپنے مالوں کے ساتھ۔‘‘
لیکن نکاح کے خواہشمند ایک صحابی کے پاس مہر میں دینے کو کچھ نہ تھا تو فرمایا:
اذهب فقد انكحتها بما معك من القرآن (عن سهل بن سعد ـ بخاري ص۷۷۴) ـ