کتاب: کراچی کا عثمانی مذہب اور اس کی حقیقت - صفحہ 117
نسائي ـ ابن ماجة) ـ بعض لوگوں کو ان روایتوں سے مغالطہ لگ جاتا ہے جن میں یہ ہے کہ آپ نے ایک مہینہ دعائے قنوت پڑھی اور پھر چھوڑ دی۔ معلوم ہونا چاہئیے کہ ان روایتوں میں قنوت نازلہ کا ذکر ہے جو پنج وقتہ نمازوں میں پڑھی گئی تھی۔ بیشک صحیح مسلم کی احادیث کا مطالعہ فرما لیں۔ اصل مسئلہ جو قابل غور ہے وہ وتروں میں ہاتھ اٹھا کر دعائے قنوت پڑھنے کا ہے باوجود تلاش بسیار کے کم از کم میرے ناقص علم میں ابھی تک کوئی صحیح حدیث نہیں آئی البتہ اس مسئلہ میں یہ کہاجا سکتا ہے کہ جب قنوت نازلہ میں ہاتھ اٹھانا ثابت ہے (مسنداحمد) تو اسے بھی اس پر قیاس کیا جا سکتا ہے کیونکہ فرضی اورنفلی نمازوں کے مابین شراط و آداب کا فرق نہیں ۔ نیز جزء رفع یدین بخاری میں ابن مسعود سے اور قیام اللیل میں مروزی میں ابن مسعود کی علاوہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور کچھ تابعین رحمہ اللہ سے قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانے کا ثبوت ملتا ہے۔ (بحوالہ تحفۃ الاحوذی ج ص۳۴۳)۔ لہٰذا قنوتِ وتر میں اگر ہاتھ اٹھا لئے جائیں تو جواز کی گنجائش بہرحال نظر آتی ہے کیونکہ ہاتھ اٹھانا دعا کے آدب میں شامل ہے۔ تاہم ہمارے نزدیک نہ صرف ہاتھ اٹھانا واجب نہیں بلکہ سرے سے دعائے قنوت ہی واجب نہیں ا لبتہ عثمانی صاحب کے اصلی مذہب حنفی میں قنوت وتر کا وجوب ضرور محل نظر ہے اور قنوت کے لئے تکبیر تو بالکل بلا دلیل اور بے موقع ہے۔ اذان اور امامت پراجرت لینا:۔ انہیں ایک یہ شکایت ہے کہ