کتاب: کراچی کا عثمانی مذہب اور اس کی حقیقت - صفحہ 115
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے ایک شخص کو حالتِ نماز میں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے دیکھا تو فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہونے کے بعد ہاتھ اٹھاتے تھے ۔ (تحفۃ الاحوذی ج۱ ص۲۴۵) (بحوالہ مجمع الزوائد ہیثمی۔ طبرانی)۔
بروایت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
’’نماز کے بعد سیدھے ہاتھوں سے یارب یا رب کہکر دعا مانگو‘‘(ترمذی)
مختصر یہ کہ نماز کے بعد دعا مانگنا سنت ہے۔ ہاتھ اٹھانا اس کے آداب میں شامل ہے۔ تاہم یہ نمازیوں کی مرضی ہے کہ وہ ہاتھ ا ٹھا کر مانگیں یابغیر ہاتھ اٹھائے مانگیں۔ فردًا فردًا مانگیں یا مل کر مانگیں سب جائز ہے۔ صحیح اور خصوصی ثبوت کے بغیر ہر قسم کی پابندی سے گریز کرنا چاہئیے اسے ضروری سمجھنا اتنا ہی غلط ہے جتنا کہ اس سے منع کرنا۔ اس مسئلہ میں تشدد اور تفریق بین المسلمین روا نہیں۔
علامہ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا جائز ہے اور کوئی حرج نہیں ہے۔ (تحفۃ الاحوذی ج۱ ص۲۴۶)۔
جو لوگ اس موقع پر ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کے خلاف ہیں میں ان سے بوچھتا کہ پھر اس سے بہتر اور کون سا موقع ہے؟ ہم لوگوں سے کہتے ہیں کہ غیروں سے نہ مانگو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے مانگنا بھی چھوڑ دیا ہے، یہ کیسی توحید ہے؟
البتہ عثمانی صاحب کے ہم مسلک حنفیہ کا رویہ عجیب ہے یہ ہر نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر برائے نا دعا کرنا ضروری سمجھتے ہیں حتیٰ کہ اس کی خاطر مسنون اذکار تک کو ترک کر دیتے ہیں۔ حالانکہ ان کی کسی کتاب میں یہ مسئلہ بیان نہیں ہوا۔ پتہ نہیں یہ کس کے مقلد ہیں بریلوی حضرات تو اور بھی بہت گل کھلاتے ہیں مگر