کتاب: کراچی کا عثمانی مذہب اور اس کی حقیقت - صفحہ 114
تو اس کا جواب اس حدیث کے الفاظ میں موجود ہے یعنی اتنے مبالغہ سے نہیں اٹھاتے تھے کہ بغلوں کی سفیدی ظاہر ہو جائے مطلق اٹھانے کی نفی نہیں ہے۔ علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم استسقاء کے سوا ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے مگر بات یہ نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بے شمار مقامات پر ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا ثابت ہے۔ تیس کے قریب روایتیں تو میں نے صحیحین سے جمع کر کے باب صفۃ الصلوٰۃ شرح مہذب کے آخر میں ذکر کی ہیں۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آپ عام دعاؤں میں بہت اونچی نہیں ہاتھ اٹھاتے تھے یا ممکن ہے سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے واقعی نہ دیکھا ہو بلکہ دوسروں نے دیکھا ہو۔ (شرح مسلم ج۱ ص۲۹۳)۔ یہ دونوں احتمال ممکن ہیں پہلے احتمال کی دلیل حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ کہنا ہے: ان رفعكم ايديكم بدعة ما زاد رسول الله صلی اللّٰه علیہ وسلم على هذا يعني الى الصدر (مسند احمد ج2 ص139) ’’تمہارا ہاتھ اٹھانا بدعت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سینے سے اوپر نہیں اٹھاتے تھے‘‘ دوسرے احتمال کی مثال یہ دی جا سکتی ہے۔ صحیحین کی روایتوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا صلوٰۃ الضحیٰ پڑھنا ثابت ہے مگر ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو کہنے لگے کہ مجھے پتہ ہی نہیں ہے۔ (بخاری ص۱۵۷) تو اس کا بھی یہی جواب ہے کہ آپ نے اس پر چونکہ دوام نہیں فرمایا اس لئے کسی نے دیکھا کسی نے نہ دیکھا۔