کتاب: کراچی کا عثمانی مذہب اور اس کی حقیقت - صفحہ 112
کرے۔‘‘ لفظ مسئلہ کی عمومیت سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہو گیا کہ استسقاء کے علاوہ بھی کبھی کسی دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے جا سکتے ہیں۔ سورج گرہن کے موقع پر بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی ۔‘‘(عن عبدالرحمن بن سمرہ مسلم ج۱ ص۲۹۹)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت البقیع میں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی۔ (عن عائشہ رضی اللہ عنہا مسلم ج۱ ص۳۱۳) ۔ فتح مکہ کے موقع پر کوہِ صفا پر چڑھ کر آپ نے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی۔ (عن ابی ہریرۃ ، مسلم ج۲ ص۱۰۳) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے جمرتین کے پاس ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی اور کہاکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یونہی دیکھا ہے۔ (بخاری ص۲۳۶)۔ ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ اٹھا کر اللّٰہم امتی کہہ کر رونے لگے۔ (عن عبداللہ بن عمرو بن عاص۔ مسلم)۔ ایک مرحوم و مغفور صحابی کے لئے ہاتھ اٹھا کر فرمایا کہ: اللهم وليديه فاغفر ـ (عن جابر مسلم) ’’یا اللہ اس کے ہاتھوں کو بھی بخش دے۔‘‘ اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عموماً دعا کے لئے ہاتھ اٹھا لیا کرتے تھے۔ صحابہ کرام جو ہر ضروری اورغیر ضروری باتوں میں آپ کی اتباع کرنے والے تھے کیا خیال ہے کہ وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے ہوں گے۔ صحیح بخاری کتاب الجمعہ میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے حدیث آتی ہے