کتاب: کراچی کا عثمانی مذہب اور اس کی حقیقت - صفحہ 110
سے مروی ہیں تو سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فتویٰ لگنا چاہئیے۔ (معاذ اللہ) تاکہ خارجیوں والی سنت پر پورا عمل ہو جائے بلکہ اللہ تعالیٰ پر بھی لگنا چاہئیے جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغمبر بنایا اور یہ آیت نازل فرما دی: إِنَّ اللّٰهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ ـ ’’اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے سنا دیتا ہے۔‘‘ کیونکہ میت کے بار ے میں اگر سن لینے کا عقیدہ رکھنا ہی شرک ہے تو شرک ایک منٹ کیلئے بھی جائز نہیں اور کسی کیلئے بھی جائز نہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ: مَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي : (بخاري ص ۷۵۷) جس نے میری سنت سے منہ موڑا وہ مجھ سے نہیں۔‘‘ اب مثلاً جن دوستوں کی داڑھیاں نہیں ہیں یاہیں تو سہی مگر سنت کے مطابق نہیں انہیں امت محمدیہ (یا کم ازکم اپنی جماعت) سے خارج کر دیجئے۔ قرآن مجید میں ہے کہ: وَأَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ـ (بقرة: ۲۷۵) اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے۔‘‘ مگر جو جو ان بینکوں میں نوکریاں کرتے ہیں میں حیران ہوں ان کے لئے عثمانیوں میں گنجائش کیسے نکل آئی جب کہ سودی کاروبار کرنے والوں کے خلاف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا اعلانِ جنگ ہے۔ (بقرۃ: ۲۷۹) ان کے مذہب کی مجھے سمجھ نہیں آئی۔ کسی سر پیر کا پتہ نہیں چلا۔ یہ کیا تک ہے جویہ کہے میت سلام سن لیتی ہے وہ ان کے نزدیک مشرک ا ور دوزخی ہو جاتا ہے اور اس کے