کتاب: کراچی کا عثمانی مذہب اور اس کی حقیقت - صفحہ 106
جاتا ہے ۔ جو لوگ السلام علیکم یا اہل القبور سے مُردوں کی زندگی پر استدلال کرتے ہیں انہیں عثمانی صاحب یوں جواب دیتے ہیں: یہ سب عربی زبان سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ عربی دان جانتا ہے کہ یہاں یا سے خطاب مراد نہیں بلکہ دعا مراد ہے۔ (یہ مزار یہ میلے ۔ص۱۹) اسی طرح میں کہتا ہوں کہ حضور والا! یہ حضرت والا اعتراض بھی اُردو زبان سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ نیز سب نمازی التحيات میں یہ پڑھتے ہیں: السلام عليك ايها النبي (صحيحين) حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بالیقین حاضر نہیں ہیں۔ آپ نے چاند دیکھنے کی یہ دعاء ارشاد فرمائی: اللَّهُمَّ أَهْلِلْهُ عَلَيْنَا بِاليُمْنِ وَالإِيمَانِ وَالسَّلاَمَةِ وَالإِسْلاَمِ، رَبِّي وَرَبُّكَ اللّٰهُ (ترمذي) ـ ’’یا اللہ! اس چاند کو امن، ایمان، سلامتی اور اسلام کے ساتھ ہمارے اوپر طلوع فرما۔(اے چاند!) میرا اور تیرا رب اللہ تعالیٰ ہے۔‘‘ چاند دکھلائی ضرور دیتا ہے مگر حاضر نہیں ہے نہ وہ خطاب کے قابل کوئی چیز ہے۔ اس قسم کے اعتراضات سے نہ صرف عثمانی اپنے مسلک کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ ہمارے لئے بھی مشکل پیدا کرتے ہیں حاضر و ناظر کا عقیدہ رکھنے والے کہہ سکتے ہیں کہ جب آپ کے اپنے بقول صرف لفظ حضرت سے حاضری ثابت ہو سکتی ہے تو السلام عليكم يا اهل القبور یا السلام عليك ايها النبي سے حاضری کیوں ثابت نہیں ہو سکتی؟