کتاب: کراچی کا عثمانی مذہب اور اس کی حقیقت - صفحہ 104
بدتمیزی سے ملک میں کسی صالح انقلاب کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ آپ اس جمہوریت کو جتنا بُرا سمجھتے ہیں میں اسے اس سے بھی زیادہ بُرا سمجھتا ہوں میرے نزدیک یقینا اصحاب الرائے اور نمازی اور پرہیزگار قسم کے مسلمان ہی ووٹنگ کے اہل ہونا چاہئیں مگر یہ بھی تو ایک محدود قسم کی جمہوریت ہی ہے۔ جمہوریت اگر شرک ہے تو کیا شرک ذراسا جائز ہے۔ نیز عرض ہے کہ یہ ملک ووٹ سے بنا ہے اور ووٹ ہی سے اس کا نظام قائم ہے۔ اگر ووٹ لینا دینا شرک ہے تواس مشرکانہ ماحول میں رہنے کی بجائے عثمانیوں کو ایسی جگہ تشریف لے جانا چاہئیے جہاں ا ن کے مسلک کا نظام قائم ہو۔ ایسا نظام قائم ہو جو عثمانی صاحب نے متبادل کے طور پر پیش کیا ہو۔ أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا ـ (النساء: 97) ’’کیا اللہ تعالیٰ کی زمین وسیع نہیں تھی کہ تم ہجرت کر جاتے۔‘‘ حضرت:۔ ایسے لگتا ہے جیسے انہیں شرک کا مالیخولیا ہو گیا ہو انہیں لفظ شرک کی بو نے لگی ہے۔ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حضور یا حضرت کہنا بھی شرک ہے کیونکہ اس کے معنی حاضر ہونے کے ہوتے ہیں بال کی کھال اتارنا اسی کو کہتے ہیں۔ جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر و ناظر سمجھتے ہیں وہ ان الفاظ پر گزارہ نہیں کرتے۔ ان الفاظ کی حیثیت فقط تعظیم کی سی ہے۔ حاضر و غائب دونوں کے لئے ان کا استعمال شائع و ذائع ہے یہ الفاظ لوگ ان شخصیات کے لئے بھی بول لیتے ہیں جن کسی کے نزدیک بھی حاضر ناظر نہیں اور اہلحدیث بھی بولتے ہیں جن کایہ مسلک ہی نہیں۔ بلکہ عثمانی صاحب بھی بولتے ہیں جنہیں اپنی توحید کا بہت غرہ ہے۔ مثلا