کتاب: کراچی کا عثمانی مذہب اور اس کی حقیقت - صفحہ 102
حدیثوں پر اعتبار کرنا اور ان سے استدلال کرنا شرک نہیں۔ تعویذوں کے سلسلہ میں عرض کر دوں کہ اگر ان میں غیر اللہ سے استمداد کی گئی ہو تو ان کے شرک ہونے میں شبہ نہیں اور اگر اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کی گئی ہو یا اس میں قرآنی آیات لکھی ہوں تو ایسے تعویذوں کو بھی حدیثوں کے اطلاق کی بناء پر (روحانی عاملوں کی علی الرغم) شرک کہا جائے گا۔ بلکہ دیگر مفاسد کی بناء پر اور بھی بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ وہ شرک نہیں جس سے انسان خارج عن الاسلام ہو جائے اگر اس طرح لوگ مشرک بننے لگیں تو شرک کی تلوار سے کوئی نہیں بچ سکے گا مثلاً پہلے ضمنًا ذکر آ چکا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
إِنَّ يَسِيرًا الرِّيَاء شِرْكٌ ـ (ابن ماجة)
’’ذرا سی ریاکاری بھی شرک ہے۔‘‘
اس شرک سے شاید ہی کوئی محفوظ رہتا ہو فرمایا:
الطِّيَرَةُ شِرْكٌ ـ (ابوداؤد)
’’بدشگونی شرک ہے۔‘‘
یہ کمزوری بھی کس میں نہیں پا جاتی؟ قرآن مجید میں ہے کہ
مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ (الفرقان: ۴۳) ـ
’’کیا پس جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا لیا۔‘‘
اپنی خواہش کو معبود کس نے نہیں بنایا؟ فرمایا:
وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ـ (الروم: 31)
’’اور نماز قائم کرو اور مشرکوں سے نہ ہو جاؤ۔‘‘
نماز کا تو خیر ہر ایک نہیں اقامتِ نماز کا مجرم کون نہیں ہے۔ الا ما شاء اللہ