کتاب: کلمہ طیبہ مفہوم فضائل - صفحہ 106
اس کے علاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے دیگر بیشمار دلائل ہیں ([1]) جنہیں
[1] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے دلائل میں سے موجودہ زمانہ کا وہ واقعہ بھی ہے جو ’’سعودی اخبار‘‘ کے شمارہ نمبر ۹۴۲۲ میں مورخہ ۱۵/۸/۱۴۱۰ھ مطابق ۱۲/مارچ ۱۹۹۰ ء کو شائع ہوا اور اس کے سبب نائیجیریا کے چار گاؤں کے لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے! واقعہ من و عن حسب ذیل ہے:
ایک گمراہ اور اسلام کا کھلا استہزا و مذاق کرنے والا شخص اس وقت ہلاک و برباد ہو گیا جب اس نے اسلام اور قرآن کریم میں تشکیک پیدا کی اور لوگوں کے سامنے اعلان کیا کہ:اگر قرآن اور اسلام واقعی حق ہیں تو میں اللہ سے دعا کرتاہوں کہ اپنے گھر زندہ نہ لوٹوں ! اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ یہ کافر سچ مچ اپنے گھر واپس ہونے سے پہلے ہی موت کے گھاٹ اتر گیا!
یہ واقعہ شمالی نائیجیریا ‘صوبہ گونگپولی کے پوپ نامی ایک گاؤں میں پیش آیااور اس کے بعد ہی پورے گاؤں اور آس پاس کے مزیدتین گاؤں کے لوگ مسلمان ہو گئے۔
واقعہ کے عینی شاہدین کا بیان ہے کہ:عمر غیمو نامی اسلام اور قرآن کو جھٹلانے والایہ شخص جوکہ پوپ گاؤں میں کنیسہ باتیسی کا پادری تھا‘ کنیسہ میں تقریر کرتے ہوئے اسلام اور قرآن کریم کے بارے میں زبان درازی کرنے لگا اور اس دوران اس نے اسلام اور قرآن کریم پر کئی بے بنیاد الزامات لگائے اور جھوٹی باتیں منسوب کیں ‘ اور تقریر کے اخیر میں کہا: ’’اگر قرآن اور اسلام واقعی حق ہیں تو میں اللہ سے دعا کرتاہوں کہ اپنے گھر زندہ نہ لوٹوں !‘‘۔پادری مکمل یقین اور اعتماد کے ساتھ کنیسہ سے نکلا کہ وہ بخیر و عافیت اپنے گھر پہنچے گا‘ اسے ہر گزکوئی نقصان نہ ہو گا‘اور پھروہ اس چیلنج کواسلام اور قرآن کے بارے میں اپنی تمام تر افترا پردازیوں پردلیل بنا سکے گا۔ لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ پادری کے گھر کے راستے میں کوئی ایسی چیز نہ تھی جس سے انسانی جان کو کسی قسم کا خطرہ لاحق ہو سکے ! لیکن اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ پانی کی ایک چھوٹی سی نالی پار کرتے ہوئے اس کا قدم پھسلا ‘ وہ گرا اور مرگیا۔انتہائی خوف و دہشت اور بے چینی کی حالت میں فوری طور پرکچھ کرسچنوں نے اسے ہسپتال میں منتقل کیا ‘ جہاں اسے مردہ ہونے کے سبب لینے سے انکارکردیا گیا،لوگ اسے دوسرے تیسرے ہسپتال میں بھی لے گئے لیکن سبھی جگہوں پر یقینی طور سے اسے مردہ قرار دیا گیااور بتایا گیا کہ بلا کسی ظاہری چوٹ یا زخم کے اس شخص کی موت واقع ہوگئی ہے۔
اس سے بھی تعجب کی بات یہ ہے کہ جب اس دشمن اسلام کا پاؤں پھسلا تو ایک راہ گیر نے اسے بچانے کی کو شش کی‘ اور وہ بھی موت کے گھاٹ اترگیا۔
یہاں یہ بتا دینا مناسب ہو گا کہ یہ پادری پہلے کرسچن تھا‘ پھر اسلام قبول کیا اور ایک مدت تک مسلمانوں کے درمیان رہا‘ اور اس کے ساتھ مسلمانوں جیسا سلوک کیا جاتارہا ‘ لیکن پھر خفیہ طور پر اسلام سے مرتد ہو گیا اور اللہ کے دین کا دشمن بن گیا‘ یہاں کہ (اللہ کی مشیت سے) اپنے کیفر کردار کو پہنچ گیا۔