کتاب: کلمہ طیبہ مفہوم فضائل - صفحہ 105
کہ اگر انہوں نے موت کی تمنا کی تو یقینا اُنہیں موت آ دبوچے گی۔ لہٰذا اگرانہیں اپنی کتابوں کے ذریعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف اور باتوں میں آپ کی صداقت کا علم نہ ہوتا تو وہ مباہلہ کے طور پر اپنے اور مسلمانوں میں سے جھوٹے فریق کی موت کی تمنا ضرور کرتے،[1]اسی طرح اللہ عز وجل کا یہ فرمان بھی ہے: ﴿قُلْ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ هَادُوا إِن زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِيَاءُ لِلّٰہِ مِن دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿٦﴾ وَلَا يَتَمَنَّوْنَهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ۚ وَاللّٰہُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ﴾[2] کہہ دیجئے اے یہودیو! اگر تمہارا خیال یہ ہے کہ لوگوں میں صرف تم ہی اللہ کے ولی اور محبوب ہو‘ اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو تو موت کی تمنا کرو۔ یہ اپنے کالے کرتوت کے سبب کبھی موت کی تمنا نہیں کرسکتے‘ اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔
[1] دیکھئے: درء تعارض العقل والنقل،ازشیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ ۷/۹۹،وتفسیر ابن کثیر ۱/۱۲۸،۱۲۹ و تفسیر سعدی ۱/۱۱۴۔ [2] سورۃ الجمعہ: ۶،۷۔