کتاب: جہاد کے مسائل - صفحہ 9
ایک ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے ہو اسی طرح تم ایک باپ کی اولاد ہو تمہارا نسب بے عیب اور تمہارا حسب بے داغ ہے خوب سمجھ لو کہ جہاد فی سبیل اللہ سے بڑھ کر کوئی کار ثواب نہیں ، آخرت کی دائمی زندگی ، دنیا کی فانی زندگی سے کہیں بہتر ہے ۔کل اللہ کی نصرت کی دعا مانگتے ہوئے دشمنوں پر ٹوٹ پڑنا اور جب دیکھو کہ لڑائی کا تنور خوب گرم ہے اور جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے ہیں تو خاص آتش دان میں گھس جانا اور دیوانہ وار تلوار چلانا۔ ہو سکے تو دشمن کے سپہ سالار پر حملہ آور ہونا ، کامیاب رہے تو بہتر اور اگر شہادت نصیب ہوئی تو یہ اس سے بھی بہتر ہے کہ آخرت کی فضیلت کے مستحق بنو گے ۔‘‘ اگلے روز معرکہ کار زار گرم ہوا تو ضعیف العمر خاتون نے اپنے ناتواں ہاتھ بارگاہ الٰہی میں اٹھا دئیے ’’الٰہی ! میری متاع عزیر یہی تھی جو میں نے تیرے سپرد کر دی ہے۔‘‘ جنگ ختم ہوئی تو اس جری اور حوصلہ مند خاتون نے باری باری اپنے چاروں بیٹوں کی شہادت کی خبر سنی تو پھر اپنے دست ناتواں بارگاہ الٰہی میں پھیلا دئیے ’’اس اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے اپنے بیٹوں کے قتل سے مشرف کیا ۔اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ قیامت کے دن مجھے ان بچوں کے ساتھ سایہ رحمت میں جگہ دے گا۔‘‘ جذبہ جہاد اور شوق شہادت سے متعلق ہم نے تاریخ اسلام کے چند واقعات تحریر کئے ہیں ورنہ قرن اولیٰ کے مسلمانوں کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ جہاد ان کی روز مرہ زندگیوں میں اسی قدر رچ بس چکا تھا کہ ان کے نزدیک جہاد کے بغیر اسلامی زندگی کا تصور ناتمام اور ادھورا تھا ۔اس کا کچھ اندازہ حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے ان اشعار سے لگایا جا سکتا ہے جو انہوں نے جہاد پر روانہ ہوتے ہوئے اپنے ایک ساتھی حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ کو لکھوائے۔ یَا عَابِدَ الْحَرَمَیْنِ لَوْ اَبْصَرْتَنَا لَعَلِمْتَ اَنَّکَ فِی الْعِبَادَۃِ تَلْعَبْ مَنْ کَانَ یَخْضِبُ خَدَّہُ بِدَمُوْعِہِ فَنَحُوْرُنَا بِدِ مَائِنَا تَتَخَضَّبْ رِیْحُ الْعَبِیْرِلَکُمْ وَنَحْنُ عَبِیْرُنَا دَہْجُ السَّنْابُکِ وَالْغُبَارُ الْاُطْیَبْ (ابن کثیر) ترجمہ : ’’اے حرم مکہ اور حرم مدینہ میں بیٹھ کر عبادت کرنے والے ، اگر تو ہمارا حال دیکھ لے تو تجھے معلوم ہو جائے کہ تیری عبادت تو محض کھیل ہے ایک وہ شخص ہے جس کے آنسو اس کے رخساروں کو تر کرتے ہیں اور دوسرے ہم لوگ ہیں کہ اپنی گردنیں اللہ کی راہ میں کٹوا کر اپنے ہی خون میں نہا لیتے ہیں تمہارے لئے ’’اگر ‘‘کی خوشبوئیں اور ہمارے لئے گھوڑوں کے ٹاپوں کی خاک اور پاکیزہ غبار ہی ’’اگر‘‘کی خوشبو ہے۔‘‘