کتاب: جہاد کے مسائل - صفحہ 8
جنگ احد میں جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی افواہ پھیلی تو بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حوصلہ ہار بیٹھے۔حضرت انس بن نضر رضی اللہ عنہ کا ادھرسے گزر ہوا تو پوچھا’’کس چیز کا انتظار کررہے ہو؟‘‘صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم نے جواب دیا ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو شہید کر دئیے گئے ہیں (اب جہاد کس لئے؟)‘‘ حضرت انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’اب تم لوگ زندہ رہ کر کیا کرو گے ؟ اٹھو اور جس چیز پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جان دی ہے اسی پر تم بھی جان دے دو۔‘‘ حضرت انس بن نضر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے تو حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ملے ، پوچھا ’’انس( رضی اللہ عنہ )! کہاں جارہے ہو؟‘‘ حضرت انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا ’’جنت کی خوشبو کے کیا کہنے ، احد پہاڑ کی دوسری جانب سے جنت کی خوشبو آرہی ہے۔‘‘آگے بڑھے ، مشرکین سے دو دو ہاتھ کئے اور راہ حق میں جان ، جان آفرین کے سپرد کر دی ۔ جنگ کے بعد حضرت انس بن نضر رضی اللہ عنہ کے جسم پر نیزے، تلوار اور تیر کے اسی (80)سے زیادہ زخم آئے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عبد اللہ بن جحش رضی اللہ عنہ ایک جہاد میں شرکت سے پہلے ایک جگہ اکٹھے ہوئے اور دونوں نے دعا مانگنے اور ایک دوسرے کی دعا پر’’ آمین ‘‘ کہنے کا عہد کیا ۔ پہلے حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے درج ذیل دعا مانگی ’’الٰہی ! کل جو دشمن میرے مقابلے میں آئے وہ بڑا بہادر اور جنگجو ہو، الٰہی ! تو مجھے اتنی ہمت اور طاقت عطاء فرما کہ میں تیری راہ میں اس کو قتل کر سکوں۔ ‘‘ اس دعا پر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے آمین کہی۔ پھر حضرت عبد اللہ بن جحش رضی اللہ عنہ نے یہ دعا مانگی ’’الٰہی ! کل میرا مقابلہ ایسے دشمن سے ہو جو نہایت طاقتور اور جنگجو ہو ، مجھے اس کے ہاتھ سے شہادت نصیب ہو ، وہ میرے کان ، ناک کاٹ ڈالے ۔ میں جب تجھ سے ملوں اور تو مجھ سے پوچھے کہ اے عبد اللہ ( رضی اللہ عنہ )!یہ تیرے ناک ، کان کیوں کاٹے گئے تو میں کہوں کہ اے اللہ ! تیرے لئے اورتیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ۔ ‘‘حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی اس دعا پر حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے آمین کہی ۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم کے دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی دعا قبول فرمائی۔چنانچہ حضرت سعد صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران جنگ ایک نامی گرامی مشرک کو قتل کیا جبکہ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے ابن احنس ثقفی کے ہاتھوں جام شہادت نوش کیا ۔ اس کے بعد ان کی لاش کا مثلہ کیا گیا ، ان کے کان ، ناک اور ہونٹ کاٹ کر ہار بنایا گیا ۔حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے لاش دیکھی تو بے اختیار پکار اٹھے ’’واللہ! عبد اللہ ( رضی اللہ عنہ )کی دعا میری دعا سے بہتر تھی۔‘‘ جذبہ جہاد اور شوق شہادت کی تڑپ میں صحابیات رضی اللہ عنہن بھی صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم سے کسی طرح پیچھے نہ تھیں۔ حضرت خنساء بنت عمرو رضی اللہ عنہا پیرانہ سالی کے باوجود جنگ قادسیہ میں اپنے بیٹوں کے ساتھ شریک ہوئیں ۔ جنگ سے پہلے اپنے بیٹوں کے ساتھ یہ ولولہ انگیز تقریر کی ’’میرے بیٹو ! تم اپنی خوشی سے اسلام لائے، اپنی خوشی سے ہجرت کی ۔ اس اللہ کی قسم ! جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ، جس طرح تم