کتاب: جہاد کے مسائل - صفحہ 7
﴿لَوَ دِدْتُ اَنْ اُقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ اُحْیَی ثُمَّ اُقْتَلُ ثُمَّ اُحْیَی ثُمَّ اُقْتَلُ ثُمَّ اُحْیَی ثُمَّ اُقْتَلُ﴾
’’یعنی میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں ،پھر قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں ،پھر قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں۔‘‘(بخاری ومسلم وغیرہ) محض امت کو جہاد کی ترغیب دلانے یا جہاد کی فضیلت ظاہر کرنے کے لئے نہ تھے بلکہ صادق المصدوق صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دل کی گہرائیوں سے یہ خواہش رکھتے تھے کہ وہ اپنے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں لیکن اللہ تعالیٰ نے کسی مصلحت اور حکمت کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خواہش پوری نہیں فرمائی۔
جہاد کے لئے قرآن و حدیث کی تعلیم اور سنت مطہرہ کی ترغیب کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم زندگی سے کہیں زیادہ موت سے محبت کرتے تھے ۔جہاد پر نکلنے کے بعد اپنے بال بچوں میں واپس آنے کی بجائے اپنے اللہ کے پاس پہنچنا زیادہ محبوب رکھتے تھے۔
جنگ بدر میں ایک صحابی حضرت عوف بن حارث رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا ’’ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ تعالیٰ بندے کی کس بات سے (خوش ہو کر) مسکراتا ہے ؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اس بات سے کہ بندہ خالی جسم (یعنی حفاظتی ہتھیاروں کے بغیر) اپنا ہاتھ دشمن کے اندر ڈبو دے ۔‘‘ یہ سن کر حضرت عوف رضی اللہ عنہ نے اپنے بدن سے زرہ اتار پھینکی اور تلوار لے کر دشمن پر ٹوٹ پڑے حتی کہ خلعت شہادت سے سرفراز ہوئے۔
غزوہ احد کی تیاری ہورہی تھی ۔ قبیلہ بنو سلمہ کے ایک سفید ریش بزرگ حضرت عمرو بن جموع سلمی رضی اللہ عنہ ایک پاؤں سے لنگڑاتے لنگڑاتے خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور شکایت کی کہ ’’یا رسول اللہ رضی اللہ عنہ ! میرے چار بیٹے ہیں یہ خود تو جہاد میں شریک ہونا چاہتے ہیں لیکن مجھے جہاد پر جانے سے روک رہے ہیں ۔خدا کی قسم ! میں تو لنگڑاتا ہوا جنت میں جانا چاہتا ہوں ۔‘‘ حضرت عمرو بن جموع رضی اللہ عنہ بڑھاپے اور ایک ٹانگ سے معذور ہونے کی وجہ سے جہاد پر جانے کے مکلف نہ تھے لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جذبہ جہاد سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اس کے بیٹوں سے ارشاد فرمایا ’’اپنے باپ کو جہاد پر جانے دو شاید اللہ تعالیٰ انہیں شہادت نصیب فرمادے۔‘‘ چنانچہ حضرت عمرو بن جموع رضی اللہ عنہ یہ دعا کرتے ہوئے گھر سے نکلے ’’الہٰی ! مجھے شہادت نصیب فرما اور مجھے نا امید گھر واپس نہ لانا ۔‘‘ ایک ٹانگ سے معذور ہونے کے باوجود میدان جنگ میں بڑی بے جگری سے لڑے ، ساتھ ساتھ یہ فرماتے ’’میں تو جنت کا متلاشی ہوں ، میں تو جنت کا مشتاق ہوں ۔‘‘ حضرت عمرو بن جموع رضی اللہ عنہ کا ایمان صادق اور جذبہ کامل بارگاہ رب العزت میں شرف یاب ہوا اورلڑتے لڑتے شہادت کے بلند مرتبے پر فائز ہوئے۔