کتاب: جہاد کے مسائل - صفحہ 64
کو دو مرتبہ آگ اور خون میں نہلانے والے خونخوار اور سفاک درندوں کو کس نام سے پکاروگے؟کروڑوں معصوم اور بے گناہ جانوں کو ہلاک کرنے اور خون کی ندیاں بہانے والے قصابوں اور جلادوں کو کس لقب سے یاد کروگے؟ سرسبزوشاداب وادیوں اور مرغزاروں کو تاراج کرنے اور شہری آبادیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے والے دہشت گردوں کو اور مفسدوں کو تاریخ میں کون سا نام دوگے؟نسل انسانی کے گلے میں طوق غلامی کی لعنت ڈالنے والے اور تڑپتی لاشوں پر اپنی عیش وعشرت کے محل سجانے والے مغرور شہنشاہوں کے لئے لغت انسانی کے کون سے لفظ استعمال کروگے؟
المیہ یہ ہے کہ اہل کتاب عہد نبوت میں بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو خوب جاننے اور پہچاننے کے باوجود محض نسلی تعصب،حسد اور بغض کی وجہ سے ایمان نہیں لائے تھے اور آج بھی ایمان نہ لانے کی اصل وجہ یہی تعصب ،حسد اور بغض ہے ۔عہد نبوت میں ام المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا بیان کردہ واقعہ اس دعوے کا ناقابل تردید ثبوت ہے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں اپنے چچا ابو یاسر بن اخطب کو سنا کو وہ میرے (یہودی)والد حیی بن اخطب سے کہہ رہاتھا’’کیاواقعی یہ وہی(نبی )ہے؟‘‘والد نے کہا’’ہاں!خدا کی قسم وہی ہے۔‘‘چچا نے پوچھا ’’پھر کیاارادہ ہے؟‘‘والد نے کہا’’خدا کی قسم!عداوت ہی عداوت جب تک زندہ رہوں گا۔‘‘[1]
عہدنبوت کو گزرے ہوئے آج چورہ صدیاں بیت چکی ہیں لیکن افسوس کہ حریت فکر،آزادی رائے اور تہذیب جدید کے اس دور میں مغرب میں بسنے والا ترقی پسند انسان جو مادی دنیا میں زمین سے چاند تک کا سفر طے کرچکاہے ایمان کی د نیام میں تعصب،بغض اور حسد کے مقام سے ایک انچ کا سفر بھی طے نہیں کرسکا۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اج بھی اس کا انداز فکر وہی ہے جو چودہ سو سال پہلے تھا ورنہ امر واقعہ یہ ہے کہ ساری دنیا میں ہر طرف شرک اور بت پرستی کا دور دورہ تھا ،جہالت ،وحشت اور بربریت کے منحوس سائے چھائے ہوئے تھے خون ریزی،غارت گری انسانی زندگی کا لازمی جزو بن چکے تھے، شہنشاہوں اور ان کے حواریوں نے ہر جگہ رعایاکوبدترین مظالم کا نشانہ بنا رکھا تھا ۔مذہبی پروہتوں کی خانقاہیں عیش وعشرت کے اڈے بنے ہوئے تھے انسانیت بے بسی اور بے کسی کی خوفناک زنجیروں میں اس طرح جکڑی ہوئی تھی کہ نجات کے لئے کہیں سے امید کی موہوم سی کرن بھی نظر نہیں آتی تھی اس وقت پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم انسانیت کے نجات دہندہ بن کر اٹھے اور صدیوں پرانے جمے جمائے جاہلانہ نظام سے ٹکر لے کر انتہائی مختصر مدت میں محض چار سو بائیس
[1] الرحیق مختوم،ص 284