کتاب: جہاد کے مسائل - صفحہ 60
صلح نہیں کروں گا جب تک شہنشاہ روم اپنے مصلوب خدا کو چھوڑ کرسورج دیوتاکے آگے سر نہ جھکائے۔[1] تیسری صلیبی جنگ برطانیہ کے ’’شیردل‘‘رچرڈ اول(1189ء تا1199ء)نے اسلامی فوج کے ایک دستے کو جو تین ہزار افراد پر مشتمل تھاوعدہ معافی دے کر ہتھیار رکھوالئے اور بعد میں سب کو قتل کر ڈالا۔[2] 1837ء میں فرانس نے الجزائر کا دارالحکومت قسطنطنیہ فتح کیاتو اس کی فوجیں تین دن تک قتل وغارت میں مشغول رہیں۔[3] 1857ء میں انگریزوں نے جب دلی فتح کی تو فاتح قوم نے مفتوح قوم کے ساتھ جس درندگی، وحشت اور بربریت کا مظاہرہ کیاتاریخ انسانی اس کے ماتم سے قیامت تک فارغ نہیں ہوسکے گی انگریزوں کے ظلم اور بربریت کی چند جھلکیاں ملاحظہ ہوں: 1۔ دہلی میں جس شخص کے چہرے پر داڑھی نظر آتی یا جس کا پائجامہ اونچا ہوتااس تختہ دار پر لٹکا دیا جاتا۔ [4] 2۔ سرہرنی کاٹن کی یادداشتوں سے ایک اقتباس’’میں نے اپنی سکھ اردلی کی خواہش پر ان بد بخت مسلمانوں کو عالم نزع میں دیکھاجن کی مشکیں کس کر زمین پر برہنہ ڈال دیاگیاتھاان کے جسموں پر گرم تانبے کی سلاخیں ڈال دی گئی تھیں میں نے انہیں پستول سے ختم کردینا ہی مناسب سمجھا ان بد نصیب قیدیوں کے سڑتے ہوئے گوشت سے مکروہ بدبونکل کر آس پاس کی فضا کو مسموم کررہی تھی۔‘‘ [5] 3۔ مسٹر ڈی لین ایڈیٹر ٹائمز آف انڈیاکے مضمون کا ایک اقتباس’’زندہ مسلمانوں کو سور کی کھال میں سینا یا پھانسی دینے سے پہلے ان کے جسم پر سور کی چربی ملنایا زندہ آگ میں جلادینااور انہیں مجبور کرنا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ بد فعلی کریں یقینا عیسائیت کے نام پرایک بدنما دھبّہ ہے۔‘‘[6] 4۔ جنرل نکلس نے دریائے راوی کے کنارے جس بہیمانہ طریقے سے باغیوں کو قتل کیاوہ ایک لرزہ خیز داستان ہے انگریز مؤرخوں نے خود اسے انگریز قوم کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ قرار دیابقول کارڈ الفسٹن’’ہماری فوج کے مظالم کا تذکرہ روح میں کپکپی پیدا کردیتاہے جہاں تک لوٹ مار کا تعلق ہے ہم نادر شاہ ایرانی سے بھی بازی لے گئے ہیں۔‘‘[7]
[1] غزوات مقدس،ص258 [2] یورپ پر اسلام کے احسان،از ڈاکٹر غلام جیلانی برق،ص83 [3] الجہاد فی الاسلام،ص575 [4] سوانح سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ ،از شورش کاشمیری ،ص137،138 [5] سوانح سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ ،از شورش کاشمیری ،ص137،138 [6] سوانح سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ ،از شورش کاشمیری ،ص137،138 [7] سوانح سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ ،از شورش کاشمیری ،ص136