کتاب: جہاد کے مسائل - صفحہ 53
لگوا دی ۔[1] 1099ء میں عیسائیوں نے جب بیت المقدس پر قبضہ کیاتو مسلمانوں کی حالت یہ تھی کہ ہر طرف ان کے ہاتھ اور پاؤں کے انبار لگ گئے کچھ آگ میں زندہ پھینکے جارہے تھے۔کچھ فصیل سے کود کر ہلاک ہورہے تھے اور گلیوں میں ہر طرف سر ہی سر نظر آرہے تھے۔حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہیکل میں دس ہزار مسلمانوں نے پناہ لی تھی عیسائیوں نے ان سب کو قتل کرڈالا۔[2] آج کے مہذب ترین یورپ کا حال عہدقدیم کے وحشی یورپ سے ذرا بھی مختلف نہیں۔مارچ 1992ء میں بوسنیا کے مسلمان شہریوں نے ریفرنڈم کے ذریعے آزادی کا فیصلہ کیا تو متعصب سرب عیسائیوں نے بوسنوی مسلمانوں پر جو ظلم وستم کئے وہ تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے مسلمانوں کے سینوں پر خنجروں سے صلیب کے نشان بنائے گئے،بچوں کو ذبح کرکے ماں باپ کو ان کا خون پینے پر مجبور کیاگیا،حاملہ خواتین کے پیٹ چاک کرکے معصوم بچے نکال کر ذبح کئے گئے ،کم سن نوجوان اور بوڑھی خواتین کی آبروریزی کرکے انہیں قتل کیاگیا،مسلمان قیدیوں کے جسموں سے اس طرح خون نکالا گیاکہ وہ سسک سسک کر موت کے منہ میں چلے گئے،زندہ انسانوں کے جسموں سے خنجروں کے ساتھ کھال اتاری گئی،بستیوں کی بستیاں اور دیہاتوں کے دیہات نذرآتش کئے گئے،پناہ گزیں زندہ جلا دیئے گئے ،لاشوں کا مثلہ کیاگیا،سر کاٹ کر سڑکوں پر فٹ بال کی طرح روندے گئے۔[3] قدیم اور جدید وحشی یورپ کے یہ واقعات کسی تبصرہ کے محتاج نہیں یہ واقعات پڑھ کر کسی بھی ذی ہوش انسان کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں کہ دوران جنگ احترام آدمیت،امن،سلامتی،نیکی،احسان، رحمدلی،خداترسی اور شرافت کس پلڑے میں ہے اور ظلم،بربریت،دہشت گردی،شقاوت اور درندگی کس پلڑے میں ہے۔ 2۔غیر مقاتلین سے سلوک: جنگ میں کسی بھی صورت میں حصہ نہ لینے والے افراد مثلاً عورتیں،بچے،بوڑھے،بیمار،زخمی اور معذور لوگ یا گوشہ نشین درویش وغیرہ کو اسلام نے قتل کرنے سے منع فرمایاہے۔رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:’’عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کرو۔‘‘(بخاری) ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہے:’’عورتوں اور مزدوروں کو قتل نہ کرو۔‘‘ (ابوداؤد) ایک جنگ میں کچھ لوگ جمع تھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
[1] الجہاد فی الاسلام،ص212 [2] یورپ کے اسلام پر احسان،ص82 [3] تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو،مجلہ الدعوۃ،لاہور اگست1992ء،فروری1993ء ، ہفت روزہ تکبیر،کراچی15جولائی،1993ء ،ہفت روزہ زندگی لاہور،13نومبر1993ء